اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سراپادین ہیں ، آپ کی شخصیت بھی دین ہے اور آپ کے اقوال وافعال اور تقریرات ومختارات سب دین کا حصہ ہیں ۔ جب تک امام الانبیا کی ساری حیثیتیں نہ مانی جائیں ،نہ دین مکمل ہوسکتاہے، نہ دین پر ایمان مکمل ہوسکتاہے، اور نہ ہی بالواسطہ اللہ پر ایمان مکمل ہوسکتاہے۔ سامعین کرام! شانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مبنی ان چند نکات کی نشاندہی کے بعد مجھے اُمید ہے ،آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ جو حدیث ہم پڑھتے پڑھاتے اور اس کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں ، جس حدیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم علمبردار اور اس کی حجیت کے ہم دعویدار ہیں اور جس کے لئے لوگوں سے ہمارے بحث ومباحثے ہوتے ہیں ، وہ عقائد ونظریات کس قدر اہم ہیں اور اس کو ماننے میں ہم کس حد تک سچے ہیں ۔ ہمارا دماغ اس کے بارے میں کتنا روشن ہے اور ہمیں اس کے بارے میں کتنا اطمینان حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اطمینان میں اضافہ فرمائے اور ان لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائے جو شکوک و شبہات کے مرض میں مبتلا ہیں ۔ حفاظت ِ دین اللہ کے ذمہ ہے ! اللہ تعالیٰ نے پورا دین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی صورت میں نازل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پوری اُمت کی طرف مبعوث فرمایا اورامت کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کی جائے اور اس کی اطاعت کے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں ہے: ﴿فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہُ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (الاعراف:۱۵۷) ’’تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت اختیار کی اور اُنہیں مدد دی اور جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا، اس کی پیروی کی تو وہی مراد پانے والے ہیں۔‘‘ اس کے بغیر کہیں فلاح نہیں ہے اور ساتھ ہی اللہ نے وعدہ بھی فرمایا : ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ ﴾( الحجر :۹) ’’بیشک یہ (کتاب ) نصیحت ہم ہی نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنیوالے ہیں ۔‘‘ اللہ نے دین بھیجا ہے اوراس پرعمل کو واجب قرار دیا ہے اوراللہ کسی کو تکلیف مالا یطاق |