Maktaba Wahhabi

40 - 79
کو اس کے جرم کی مثل دی جاتی ہے، جبکہ ’مفکر ِقرآن‘ فرماتے ہیں کہ’قصاص کسی سزا کا نام ہی نہیں ہے، بلکہ ’مجرم کا محض پیچھا کرنا‘ ہے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ خجند کے سلطان مراد کی وہ حکایت بیان کرتے ہیں جس میں بادشاہ نے معمار کا ہاتھ کاٹ دیا، تو وہ طلب ِانصاف اور حصولِ قصاص کے لئے قاضی کے سامنے پیش ہوا۔ اپنی بپتا سنائی، قاضی نے سلطان کو حاضر ٍعدالت ہونے کا حکم دیا۔ بادشاہ اپنے کئے پر شرمندہ و نادم تھا، اس نے جب اپنے جرم کا اعتراف کیا تو گفت قاضی في القصاص آمد حیٰوۃ زندگی گیرد بایں قانوں ثبات عبد مسلم کمتر از احرار نیست خون شہ رنگین تر از معمار نیست چوں مراد ایں آیۂ محکم شنید دست خویش از آستیں بیروں کشید[1] ’’ قاضی نے کہا : زندگی کا دارومدار قانونِ قصاص پر ہے، اسی قانون سے زندگی استحکام پاتی ہے۔ مسلمان غلام آزاد سے کمتر نہیں ، نہ بادشاہ کا خوں معمار کے خون سے زیادہ سرخ ہے۔ جب سلطان مراد نے یہ آیۂ محکم سنی تو قصاص کے لئے اپنی آستیں سے ہاتھ نکال کر آگے بڑھا دیا۔‘‘[2] اب انہی اشعار ِ اقبال کا وہ مفہوم بھی پرویز صاحب کی زبان سے ملاحظہ فرمائیے جو انہوں نے اس وقت پیش کیا، جب وہ قصاص کے ’ترقی یافتہ‘ مفہوم سے واقف نہیں ہوپائے تھے، اس متجددانہ مفہوم سے، ان کی زنبیلِ تضادات میں ایک اور تضاد کا اضافہ ہوگیا ہے : ’’قاضی نے بادشاہ سے کہا کہ قرآن نے جرم کے لئے قصاص کا حکم دیا، اور اس کی حکمت و غایت یہ بتائی ہے کہ اس میں انسان کے لئے راز ِ حیات ہے، اگر جرم کی سزا نہ دی جائے تو معاشرہ کا نظام درہم برہم ہوجائے اور نوعِ انسانی کے لئے جینا دشوار ہوجائے اور چونکہ قرآن کی رو سے ہر فرزند ِقوم یکساں احترام کا مستحق ہے، اس لئے اس کے قانون میں جان کا بدلہ جان ہے بلا تمیز اس کے کہ وہ جان ایک مزدور کے قالب میں ہے یا شہنشاہ کے پیکر میں ۔ اسی اُصول کے مطابق مسلمان غلام کی جان کی قیمت، آزاد مرد سے کسی صورت میں کم نہیں ، اور یہ واقعہ ہے کہ بادشاہ کا خون، معمار کے خون سے زیادہ سرخ نہیں ہوتا۔ اس لئے قصاص کے
Flag Counter