بروقت پہنچے تاکہ اللہ کا مشن پورا ہو سکے۔ یہی وہ داعی کے کارہائے نمایاں ہیں جن کی وجہ سے اُنہیں عرش کی طرف سے ﴿كُنْتُمْ أمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلْنَّاسِ تَأمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ﴾ کا سرٹیفکیٹ ملتا ہے۔ پھر سفر کی ایسی شدید تھکاوٹ کے بعد، سٹیج پر کبھی کھانا کھائے بغیر نمودار ہو جانا ان مبلغین اسلام کا ہی کردار تھا۔ اتنی تھکاوٹ کے باوجود آواز کی شرینی، چہکتے بلبلوں کی طرح مترنم، گھنٹی کی طرح سریلی آواز سے مہکتے پھول برسانا اور گھنٹوں تقریریں کرنا، یہ ایسی باتیں جن کی وجہ سے فرشتے بھی وجد میں آجاتے ہوں گے۔ یہ بھی کرامتِ اُمتِ محمدیہ کا حصہ ہیں جو کہ معجزاتِ محمدی کا سایہ ہیں۔ نکتہ آفرینی سے پر تقریریں، آواز کی تبدیلی میں کبھی سرگوشی کی سی آواز میں بات کرنا اور کبھی آسمان کے بادلوں کی طرح گرجنا، یہ زیرو بم کا ایسا جادو ہے جو کبھی حالات کے مطابق مجمعوں کو رُلا دیتا، کبھی ہنسا دیتا ہے، کبھی غور و فکر کے سمندروں میں کتاب و سنت کے سفینوں پر اپنے سامعین کے ہمراہ سفینہ کو بھی عقل و دانش اور امن و جرأت کے ساحل پر لے جاتا ہے۔ میرے محبوب خطیب، عوام، خواص اور خاص الخواص سب کے لئے یکساں اہمیت کے نکتے پیش کرتے، جن کا منبع کتاب و سنت میں غور و فکر ہوتا تھا کیونکہ قرآنی نکات علم و دعوت لا یزال اور غیر محصور ہیں۔ دل و دماغ، گلے، زبان اور معدہ و سینہ سب کی صفائی کا یہ حال ہوتا ہے کہ آدھی آدھی رات تک آواز کا جادو بکھیرتے رہنا، نہ حلق خراش کا شکار ہو نہ سینہ کو بلغم کی شکایت اور نہ منہ کو خشکی سے پالا پڑے۔ کبھی ساری ساری رات عوام کو وجود میں لاتے رہنا، قرآنی آیات، احادیثِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حکمت و دانائی سے بھری ہوئی باتیں، موقع محل کی مناسبت سے اشعار، کبھی لاہور زبان میں، کبھی سرائیکی لہجے میں، کبھی سندھی شعروں میں ان کے تراجم کے حامل اشعار، جنہیں خود اپنے کہے ہوئے شعروں سے ملا کر مجلس وعظ کو کبھی گرمانا، کبھی بزمانا، کبھی رُلانا، کبھی ہنسانا اور کبھی چڑیوں کے چہچہوں اور کبھی بلبل کی کوکوں سے بہتر طور پر حمد الٰہی اور نعتِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم گانا، یہ ایسے کام ہیں جو کہ جب تک اللہ کی خاص مدد نہ ہو، بیک وقت ایک آدمی میں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ان کی نکتہ آفرینی کے اتنے واقعات ہیں کہ ان کو اس چھوٹے سے مضمون میں بیان کرنا |