سنانے لگے کہ خدا کی پیہم نافرمانی اور سرکشی کرنے والی اَقوام کا یہی حشر ہوتا ہے۔ چنانچہ ہوا یہ کہ وہ ڈیم جس کی تعمیر پر ان کو بڑا فخر و ناز تھا اور جس کی بدولت ان کے دار الحکومت کے دونوں جانب تین سو مربع میل تک خوب صورت اور حسین باغات اور سرسبز و شاداب کھیتوں اور فصلوں سے گلزار بنا ہوا تھا، وہ ڈیم خدا کے حکم سے ٹوٹ گیا اور اچانک اس کا پانی زبردست سیلاب بن کر وادی میں پھیل گیا اور مآرب اور اس کے تمام حصہ زمین پر جہاں یہ راحت بخش باغات تھے، چھا گیا اور ان سب کو غرقاب کر کے برباد کر دیا اور جب پانی آہستہ آہستہ خشک ہو گیا تو اس پورے علاق میں باغوں کی جنت کی جگہ پہاڑوں کے دونوں کناروں سے وادی کے دونوں جانب جھاؤ کے درختوں کے جھنڈ، جنگلی بیرو کے درخت اور پیلو کے درختوں نے لے لی جن کا پھل بد ذائقہ تھا اور خدا کے اس عذاب کو اہل مأرب اور قومِ سبا کی کوئی قوت و سطوت نہ روک سکی اور فن تعمیر اور انجینئرنگ کے کمال بھی ان کے کام نہ آئے اور قوم سبا کے لئے اس کے سوا کوئی چارۂ کار باقی نہ رہا کہ اپنے وطن مالوف اور بلدہ طیبہ مأرب اور نواح کو چھوڑ کر منتشر ہو جائیں۔ قرآنِ حکیم نے عبرت ناک واقعہ کو بیان کر کے دیدہ نگاہ اور بیدار قلب انسان کو نصیحت کا یہ سبق سنایا ہے: ﴿ فَاَعْرَضُوْا فَاَرْسَلْنَا عَلَيْھِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰھُمْ بِجَنَّتَيْھِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ اُكُلٍ خَمْطٍ وَاَثْلٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيْلٍ ذٰلِكَ جَزَيْنٰھُمْ بِمَا كَفَرُوْا وَھَلْ نُجٰزِي إلَّا الْكَفُوْرُ﴾ (سبا: ۱۶،۱۷) ’’پھر انہوں (قومِ سبا) نے ان پیغمبروں کی نصیحتوں سے منہ پھیر لیا پس ہم نے ان زور کا سیلاب چھوڑ دیا اور ان کے دو عمدہ باغوں کے بدلے دو ایسے باغ اُگا دیئے جو بد مزہ پھلوں جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں کے جھنڈ تھے۔ یہ ہم نے ان کو ناشکر گزاری کی سزا دی اور ہم ناشکری قوم ہی کو سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘ دوسری سزا: مأرب کے ڈیم ٹوٹ جانے پر جب یمنی شہر مأرب اور اس کے دونوں جانب کے علاقے سرسبز کھیتوں، خوشبودار درختوں اور عمدہ میوؤں اور پھلوں کے شاداب باغوں سے محروم ہو گئے تو ان بستیوں کے اکثر باشندے منتشر ہو کر کچھ شام، عراق اور حجاز کی جانب چلے گئے اور کچھ یمن کے دوسرے علاقوں میں جا بسے مگر عذابِ الٰہی کی تکمیل ہنوز باقی تھی۔ اس |