کیا جائے تو اللہ وہ مال و دولت اور رزق کی فراوانی کو تباہ و برباد کر کے اپنا عذاب مسلط کر دیتے ہیں۔ فاعتبروا یا أولی الابصار!! جو قوم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرنے کی بجائے ناشکری کا راستہ اختیار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے وہ نعمتیں چھین کر انہیں مختلف طرح کے مصائب و آلام میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلاً قَرْيَةً آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأتِيْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنُْمِ اللّٰهِ َاَذَاقَھَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ﴾(آيت: ۱۱۲) ’’اللہ تعالیٰ ايك بستی كی مثال دیتا ہے، وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر ہی تھی اور ہر طرف سے اس کو وافر رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزہ چکھایا کہ خوف اور بھوک کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ جو قوم کفرانِ نعمت کا راستہ اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے اَوامر و نواہی سے پہلو تہی کرے، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نعمتوں کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب کر لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ قرآن حکیم نے قومِ سبا پر اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کا ذِکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس قوم پر اللہ تعالیٰ نے بے شمار اور لا محدود انعام و اکرام کئے۔ دنیوی سج دھج، کروفر اور مال و زر کی کثرت کی وجہ سے انہیں ہمہ قسم کی نعمتیں میسر تھیں اور ان تمام چیزوں پر مستزادیہ تھا کہ یمن سے شام تک جس شاہراہ پر اہلِ سبا کے تجارتی قافلوں کی آمدورفت تھی، اس کے دونوں جانب حسین و جمیل باغات اور خوشبودار درختوں کا سایہ تھا اور قریب قریب فاصلہ پر ان کے سفر کو آرام دہ بنانے کے لئے کاروان سرائے بن ہوئیں تھی جو شام کے علاقہ تک ان کو اس آرام کے ساتھ پہنچاتی تھیں کہ پانی، میوؤں اور پھلوں کی کثرت یہ بھی محسوس نہیں ہونے دیتی تی کہ وہ اپنے وطن میں ہیں یا دشوار گزار سفر میں حتیٰ کہ جب خوش گوار سایہ اور راحت بخش ہوا میں ان کا کارواں سراؤں میں ٹھہرتا، پر لطف میوے اور تازہ پھل کھاتا، ٹھنڈا اور میٹھا پانی پیتا ہوا |