کا اعراف کر لیا گویا کہ اس نے جنت کے مستور خزانوں کی کنجی حاصل کر لی۔ اس کے برعکس کافر کی حالت یہ ہے کہ اس کو جب دولت و ثروت اور جاہ و جلال میسر آجائے تو وہ خودی میں آکر مغرور ہو جاتا ہے اور جب اسے خدا کا کوئی نیک بندہ سمجھاتا ہے کہ یہ سب اللہ کا فضل و کرم ہے، اس کا شکر کر تو وہ اکڑ کر کہتا ہے: کہ ﴿ إنَّمَا اُوْتِيْتُهُ عَلٰي عِلْمٍ عِنْدِيْ﴾ ’’یہ خدا کا دیا ہوا نہیں بلکہ میری اپنی دانائی اور علم و ہنر کا نتیجہ ہے۔‘‘ مؤمن اور کافر کو اللہ کی طرف سے بھی الگ الگ جواب ملتا ہے جسے یوں بیان کیا گیا ہے: ﴿ أيَحْسَبُوْنَ أنَّمَا نُمِدُّھُمْ بِه مِنْ مَالٍ وَّبَنِيْنَ نُسَارعُ لَھُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُوْنَ إنَّ الَّذِيْنَ ھُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّھِمْ مُشْفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ ھُمْ بِآيَاتِ رَبِّھِمْ يُؤمِنُوْنَ وَالَّذِيْنَ ھُمْ بِرَبِّھمْ لَا يُشْرِكُوْنَ وَالَّذِيْنَ يُؤتُوْنَ مَا اَتَوْا وَقُلُوْبُھُمْ وَجِلَةٌ أنَّھُمْ إلٰي رَبِّھِمْ رَاجِعُوْنَ اُوْلٰئِكَ يُسَارُِوْنَ فِيْ الْكَيْرَاتِ وَھُمْ لَھَا سَابِقُوْنَ﴾ (المومنون: ۵۵) ’’کیا (یہ کافر) خیال کرتے ہیں کہ ہم مال اور اولاد سے اس لئے ان کی امداد کر رہے ہیں کہ بھلائی پہنچانے میں سرگرمی دکھائیں، نہیں مگر وہ شعور نہیں رکھتے (کہ ان کے بارے میں حقیقت حال دوسری ہے یعنی قانونِ مہلت کام کر رہا ہے) اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں، اس کی نشانیوں پر یقین رکھتے ہیں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اس کی راہ میں جو کچھ دے سکتے ہیں، بلا تامل دیتے ہیں اور پھر بھی ان کے دل ترساں رہتے ہیں کہ اپنے پروردگار کے حضور لوٹنا ہے تو بلاشبہ یہ لوگ ہیں جو بھلائیں میں تیز گام ہیں اور یہی ہیں جو اس راہ میں سب سے آگے نکل جانے والے ہیں۔‘‘ 4. سعید وہ ہے جو انجام سے قبل حقیقتِ انجام کو سوچ لے اور انجام کار سعادتِ ابدی و سرمدی پائے اور شقی وہ ہے جو انجام پر غور کئے بغیر غرور و نخوت کا اظہار کرے اور انجامِ بد دیکھنے کے بعد ندامت و حسرت کا اقرار کرے اور اس وقت یہ ندامت و حسرت اس کے کچھ کام نہ آئے۔ چنانچہ اس واقعہ میں بھی منکر کو وہی شقاوت پیش آئی: ﴿ وَاُحِيْطَ بِثَمَرِهِ فَاَصْبَحَ يُقَلِّبُ كَفَّيْهِ عَلَي مَا أنْفَقَ فِيْھَا وَھِيْ خَاوِيَةٌ عَلٰي عُرُوْشِھَا َيَقُوْلُ يٰلَيْتَنِيْ لَمْ أشْرِكْ بِرَبّي أحَدًا﴾ (الكهف: ۴۲) |