Maktaba Wahhabi

31 - 79
اِس واقعہ سے مندرجہ ذیل چار باتیں معلوم ہوتی ہیں: 1. دنیوی نعمتیں دو گھڑی کی دھوپ اور چار دن کی چاندنی ہیں، ناپائیدار اور فانی ہیں۔ پس عقل مند وہ ہے جو ان پر گھمنڈ نہ کرے اور ان کے بل بوتے پر اللہ کی نافرمانی پر آمادہ نہ ہو جائے اور تاریخ کے وہ اوراق ہمیشہ پیش نظر رکھے جن کے آغوش میں فرعون، نمرود، ثمود اور عاد کی قاہرانہ طاقتوں کا انجام آج تک محفوظ ہے: ﴿ سِيْرُوْا فِيْ الارْضِ فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ﴾ (النمل: ۶۹) ’’زمین کی سیر كرو اور پھر ديكھو کہ نافرمانوں كا كيا انجام ہوا!‘‘ 2. حقیقی اور دائمی عزت ایمان اور عمل صالح سے میسر ہوتی ہے، مال و دولت اور حشمت دنیوی سے حاصل نہیں ہوتی۔ قریش مکہ کو مال و دولت، ثروت وسطوت حاصل تھی، مگر بدر کے میدان میں ان کے انجامِ بد اور دین و دنیا کی رسوائی کا کوئی روک نہ سکا۔ جبکہ مسلمان ہمہ قسم کے سامانِ عیش سے محروم تھے مگر ایمان باللہ اور عمل صالح نے جب ان کو دینی و دنیوی عزت و حشمت عطا کی تو اس میں کوئی حائل نہ ہو سکا: ﴿ وَللهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِهِ وَلِلْمُؤمِنِيْنَ وَلٰكِنَّ الْمُنَافِقِيْنَ لَا يَفْقَھُوْنَ ﴾ ’’حقیقی عزت الله اور اس كے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں كے لئے ہی ہے مگر منافقين اس حقیقت سے نا آشنا ہیں۔‘‘ (المنافقون: ۷) 3. مومن کی شان یہ ہے کہ اگر اس کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے تو غرور اور تکبر کی بجائے درگاہِ حق میں جبین نیاز جھکا کر اعترافِ نعمت کرے اور دل و زبان سے دونوں سے اقرار کرے کہ خدایا اگر تو یہ عطا نہ فرماتا تو ان کے حصول میری اپنی قوت و طاقت سے باہر تھا۔ یہ سب تیرے ہی عطا و نوال کا صدقہ ہے: ﴿ وَلَو لَا إذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللّٰهُ لَا قُوَّةَ إلَّا بِاللّٰهِ﴾ (الکہف: ۳۹) ’’اپنے باغ میں داخل ہوتے وقت تو نے یوں کیوں نہ کہا کہ وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔‘‘ صحیح حدیث میں ہے کہ لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ جنت کے پوشیدہ خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے کہ بندہ اعتراف کرے کہ بھلائی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر نہ ممکن ہے یعنی جس شخص نے زبان سے اقرار اور دل سے اس حقیقت
Flag Counter