Maktaba Wahhabi

22 - 86
دینے کے بعد وہ شیخ کبیر نماز مسجد ِنبوی میں ہی آکر پڑھتے ہوں ۔ اور یہ احتمال زیادہ قوی ہے کیونکہ مسجد ِنبوی میں نماز کی جو فضیلت ہے، وہ گھر میں نماز پڑھنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ جب اس میں دونوں ہی احتمال ہیں ، تو پھر اس احتمال کو ترجیح کیوں نہ دی جائے جو اسلامی تعلیمات کے مطابق بھی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مزاج و سیرت کے موافق بھی۔ پھر اس واقعے سے عورتوں کا مردوں کی امامت کرنے کا جواز کس طرح ثابت ہوسکتا ہے؟ (3) تیسرا قابل غور پہلو یہ ہے کہ حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث، حدیث کی جس جس کتاب میں بھی آئی ہے، ان سب کو دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی بھی محدث نے اس سے یہ استدلال نہیں کیا کہ عورت مردوں کی امامت کرسکتی ہے۔ اگر اس واقعے میں ایسا کوئی پہلو ہوتا تو کوئی تو محدث اس پہلو کا بھی اثبات کرتا، لیکن کسی ایک محدث نے بھی اس سے یہ مفہوم نہیں سمجھا جو ایک استعمار زدہ ٹولہ یا منحرفین کا گروہ اس سے کر رہا ہے۔ یہ حدیث ابوداود کے علاوہ السنن الكبرٰى للبيهقي،معرفة السنن والآثار للبيهقي،سنن دارقطني،ابن خزيمة اور مسند أحمد کی تبويب الفتح الرباني وغیرہ میں موجود ہے، کسی نے بھی اس حدیث پرایسا باب قائم نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتاہو کہ عورت مردوں کی امام ہوسکتی ہے یا حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے۔ (4) چوتھا قابل غور پہلو، حدیث کے الفاظ أن تؤم أهل دارها کا مفہوم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دار کا لفظ کئی معنوں کے لئے آتا ہے۔ گھر کے لئے بھی، حویلی یا محلے کے مفہوم کے لئے بھی اور قبیلے کے لئے بھی۔ لیکن سیاق و سباق اورقرینے سے یہ تعین ہوگا کہ کس جگہ یہ کس معنی میں استعمال ہوا ہے؟ اس لئے یہ کہنا کہ گھر کے لئے یہ لفظ استعمال ہی نہیں ہوتا، یکسر غلط ہے۔ اس حدیث میں بھی یہ لفظ گھر ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اہل دار سے مراد صرف حضرت اُمّ ورقہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی عورتیں ہیں ، جیسے کہ سنن دارقطنی کے ایک مقام پر یہ روایت أن تؤم أهل دارها کے بجائے أن تؤم نساء ها کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ اور حدیث کا مفہوم اس کے سارے طرق کی روشنی ہی میں متعین ہوتا ہے۔ اسی طرح
Flag Counter