علاوہ ازیں اس سے یہ علت بھی لاحق ہوتی ہے کہ جبر سے پروردہ ان کی یہ سفارشات عوام الناس کے لئے بھی حکومتی دباؤ کے بل بوتے پر نافذ ہوتی ہیں۔ اس سے بھی عوام ایک مخصوص فکری رائے پر عمل کرنے کے اُصولی پابند ہوکر شریعت کی وسعتوں سے مستفید ہونے کے حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یاد رہے کہ عامۃ المسلمین توکتاب وسنت کی ہی اُصولی اتباع کے پابند ہیں، ایسے ہی کسی مجتہد کے لئے فقہی رائے کی پابندی کا بھی اسلامی شریعت میں تصور نہیں پایا جاتا جبکہ اس قانون سازی کا سب سے پہلے قاضی صاحبان کو بھی مجتہد ہونے کے باوجود پابند کیا جاتا ہے۔ جہاں تک کسی شرعی رائے کی پابندی کی بات ہے تو مسئلہ پیش آنے پر جب قاضی سے رجوع کیا جاتاہے یا مفتی سے جواب طلب کیا جاتا ہے تب اوّل الذکر صورت میں نزاع کے فریقین کو اور ثانی الذکر صورت میں بعض اہل علم کے ہاں عام مسلمان کو مفتی کی اُس رائے کی پابندی کرنا پڑتی ہے جس پر قرآن وحدیث سے دلیل موجود ہو۔ اسلامی ریاست اپنے ماتحتوں کو کسی نظریہ کو ذ ہنی طورپر ماننے کی پابند نہیں کرسکتی جیساکہ اسلامی تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے طلاقِ مکرہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کے مخلوق ہونے کاعقیدہ شدید حکومتی جبر کے باوجود قبول نہ کیا۔ ایسے ہی خلفاء راشدین رحمۃ اللہ علیہم کے دور میں ابو ذرّ غفاری رضی اللہ عنہ کے تصورِ ارتکازِ دولت اور حذیفہ رضی اللہ عنہ بن یمان کے کتابیہ سے نکاح پربرقرار رہنے کے واقعات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں۔ اسلام اورقانون سازی اسلام میں اصلاً توشریعت کی قانون سازی کا تصور نہیں پایا جاتا، استعمار کے آنے سے قبل اسلامی ممالک میں تیرہ صدیوں تک قانون سازی کی ایسی کوئی بھی اجتماعی کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس سلسلے کی اوّلین کوشش ۱۸۷۶ء میں سلطنت ِعثمانیہ کا مجلۃ الأحکام العدلیۃہے جس کے بعد مختلف اسلامی ممالک میں ایسی قانون سازیوں کی ایک لمبی تفصیل شروع ہوجاتی ہے۔ اِنہی میں پاکستان میں عائلی قوانین ۱۹۶۲ء، حدود آرڈیننس ۱۹۷۹ء اور قانونِ قصاص ودیت ۱۹۹۱ء وغیرہ آتے ہیں۔ |