’’کمیٹی کی مرتب کردہ تجاویز لوگوں پر مسلط نہیں کی جاتیں۔ جس تجویز پر اتفاق ہو، اسے متفقہ حیثیت سے ذکر کیا جاتاہے۔جس میں شرکا کی غالب اکثریت کی ایک رائے ہو او ر ایک دو اشخاص کو اختلاف ہو، ان میں پہلی رائے کا بحیثیت ِتجویز ذکر کرتے ہوئے اختلاف رکھنے والے حضرات کے نام، اور نقطہ نظر کے حاملین کی مناسب تعداد ہو تو تجویز میں اختلافِ رائے کا ذکر کرتے ہوئے دونوں نقاطِ نظر کو مساویانہ حیثیت میں بیان کیا جاتاہے اور ہررائے کے قائلین میں معروف، نمایاں اور اہم شخصیتوں کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اور جس طرح تجاویز سیمینار میں پیش کی جاتی ہیں، بعینہٖ اسی طرح طبع کرلیا جاتا٭ہے۔‘‘ (مقالاتِ سیمینار:ص۱۹۴) جس طرح جوابات کی تیاری کے وقت فکری جبر کویہاں گوارا نہیں کیا جاتا، ایسے ہی اس نوعیت کے اداروں کے کام کی نوعیت بھی سفارشات تک ہی محدود رہتی ہے اور بعد میں عوام الناس کو بھی ان آرا کا پابند نہیں بنا یا جاتا۔ اجتماعی اجتہاد کے اس نوعیت کے اداروں کا کام لائق تحسین ہے اور اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ ٭ دوسری طرف اجتماعی اجتہاد کے تحت ایسے بھی متعدد اداروں کو شامل کیا جاتاہے جن کا مقصد ممکنہ مسائل کے پیش نظر کتاب وسنت سے بعض احکامات کو قانونی الفاظ کا جامہ پہنانا ہوتا ہے۔ ایسی قانون ساز مجالس کا مقصد چونکہ چند متعین نکات پر پہنچنا ہوتا ہے ، اگر اس میں متعدد نقطہ ہائے نظر کو راہ دی جائے تو قانون سازی کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے چنانچہ یہاں اجتماعی اجتہاد کے دوران بھی ایک مخصوص نتیجہ تک پہنچنے کے لئے فکری جبر اختیار کرنا، کچھ لینا اور کچھ دینا سے گزرنا پڑتا ہے۔ مفاہمت اورانتظامی دباؤ یا کسی ضابطے کے زیر اثر ہونے والی یہ قانون سازی اس میں شریک اہل علم کی فکری آزادی کے حق کو متاثر کرتی ہے۔ اس لئے ایسی قانون ساز مجالس کا دورانِ اجتہادیہ جبر اسلامی شریعت کی رو سے پسندیدہ نہیں کہا جاسکتا۔ (٭ تاہم اوّل تو ایسی اجتماعی کاوشوں میں مختلف مکاتب ِفکر کو مناسب نمائندگی نہیں دی جاتی، ثانیاً ان فقہی مقالات اور فیصلہ جات پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات ضرور سامنے آتی ہے کہ ان میں فقہی توسع اور نصوصِ شریعت کی بالادستی کا کماحقہ اہتمام نہیں کیا جاتابلکہ فقہ حنفی کا رجحان غالب نظر آتاہے جیسا کہ ولایت ِنکاح کے مسئلے میںفقہ حنفی کی رائے کو اختیار کیا گیا ہے، حالانکہ متعدد نصوص سے اس کی حمایت نہیں ہوتی اور موجودہ حالات میں اس سے مرد و زَن کے بے باکانہ معاشقوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ ) ٭ تاہم اوّل تو ایسی اجتماعی کاوشوں میں مختلف مکاتب ِفکر کو مناسب نمائندگی نہیں دی جاتی، ثانیاً ان فقہی مقالات اور فیصلہ جات پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات ضرور سامنے آتی ہے کہ ان میں فقہی توسع اور نصوصِ شریعت کی بالادستی کا کماحقہ اہتمام نہیں کیا جاتابلکہ فقہ حنفی کا رجحان غالب نظر آتاہے جیسا کہ ولایت ِنکاح کے مسئلے میںفقہ حنفی کی رائے کو اختیار کیا گیا ہے، حالانکہ متعدد نصوص سے اس کی حمایت نہیں ہوتی اور موجودہ حالات میں اس سے مرد و زَن کے بے باکانہ معاشقوں کی بھی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ |