Maktaba Wahhabi

71 - 77
نقطہ نظر حافظ حسن مدنی اجتماعی اجتہاد؛ چند قابل ذکر پہلو مقصد و ضرورت اُمت ِمسلمہ میں چند صدیاں ایسی گزری ہیں جب اجتہاد کا دروازہ بند کرکے پچھلے فقہاء ومجتہدین کی آرا پر ہی عمل کرلیناکافی سمجھا جاتا رہا، لیکن موجودہ دور میں ترقی وایجادات نے جس تیزی سے انسانی زندگی میں محیر العقول تبدیلیاں برپا کی ہیں، اس کے بعد وہی علما جو پہلے اجتہاد کے دروازے کو بند کرنے کاموقف رکھتے تھے، اب اسے کھولنے کے لئے آمادہ نظر آتے ہیں۔کسی مخصوص فقہ کے پیروکاروں کی اصل مشکل یہ رہی ہے کہ اس فقہی مذہب کی نسبت جن عظیم المرتبت ائمہ فقہاسے ہے، آج ایسے عالم وفاضل اور وجیہ مجتہدین سے زمانہ خالی نظر آتا ہے، اس لئے اُنہوں نے اجتہاد کو بند رکھنے میں ہی عافیت خیال کی۔ یہ امر درست ہے کہ اسلامی تاریخ جن ائمہ اسلاف کے کارہائے نمایاں سے ہمیں آگاہ کرتی ہے، ان کی شخصیات بڑی بھاری بھرکم ہیں اور ان سے ہماری نفسیاتی وابستگی بھی ہمارے دلوں میں اُنہیں ایک عظیم مقام عطا کردیتی ہے، لیکن اس عظمت کا یہ مطلب نکال لینا کہ اب اجتہاد کو ہی موقوف کردیا جائے، کوئی متوازن راہ نہیں ہے۔ چنانچہ کسی فقہی مذہب کے ماننے والوں کے ہاں بالعموم اجتہاد کی ایسی طول طویل شرائط پائی جاتی ہیں جن کی مصداق شخصیت کا وجود ان اَدوار میں مشکل نظرآتا ہے۔ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ”میرے نزدیک دنیا بھر کے مسلمانوں کے متعلق یہ بہت ہی بری رائے ہے۔ غالباً ابھی تک ہمارے مخالفوں نے بھی ہمیں اتنا گرا ہوا نہیں سمجھا ہے کہ ایک اَرب سے زائد مسلمانوں میں ان صفات کے حامل اشخاص کی تعداد 10، 12 سے زیادہ نہ ہو۔“ ( تفہیمات: 3/19) البتہ وہ لوگ جو کتاب وسنت کی حدود میں رہتے ہوئے فقہی آرا میں توسع کا پہلو اختیار کرتے رہے ہیں، ان کے ہاں یہ شرائط بھی اتنی بڑی نہیں ہیں۔مختلف فقہی مکاتب ِفکر کے ہاں
Flag Counter