Maktaba Wahhabi

72 - 77
شرائط ِاجتہاد کڑی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسی شرائط کے ذریعے انہی صفات کے حامل علما کو اجتہادکا اہل قرار دینا چاہتے ہیں جو ان کے ائمہ فقہاسے صفات میں قریب ترین ہوں۔ چونکہ اسلامی دنیا میں فقہی مکاتب ِفکر کے پیروکاروں کی ہی اکثریت ہے، اسی لئے بالعموم یہاں اجتہاد کا دروازہ بند رکھنے پر ہی زور دیا جاتا رہا ہے اور اُنہوں نے سابقہ فقہی آراسے ہی کام چلانے کی کوششیں کی ہیں۔ اس مقصد کے لئے ان کے ہاں مجتہد ِمطلق، مجتہد ِمذہب اور مجتہد ِفتویٰ کی کئی تفصیلات بھی ملتی ہیں حتی کہ احناف کے ہاں مجتہدین کی یہ اقسام پا نچ تک پہنچ جاتی ہیں۔ اب نئے زمانے کی تیز دوڑ کا ساتھ دینے کے لئے جب اجتہاد کا احیا کرنا ضروری ٹھہرتا ہے اور بہت سے ایسے مسائل پیش آتے ہیں جن کے بارے میں فقہ اسلامی کے ذخیرے میں براہ راست کوئی تفصیل موجود نہیں تو اس مشکل کا یہ حل تجویز کیا جاتا ہے کہ کسی ایک فرد میں ان بلند خصائص کو مجتمع دیکھنے کی بجائے اہل علم افراد کے ایک مجموعے میں اُنہیں مکمل کرلیا جائے۔ ’اجتماعی اجتہاد‘ کی اصطلاح متعارف کرانے کا ایک پس منظر یہ بھی ہے۔ اجتہاد کو ’فرد‘ سے ’اجتماع‘ کی طرف لے جانے کی یہ ایک اہم وجہ ہے جس کے پس پردہ اجتہاد کے بارے میں حددرجہ احتیاط کا تصور کارفرماہے۔ اس کی دیگر ضروریات میں یہ بھی شامل کیا جاتا ہے کہ زندگی کے مختلف پہلوؤں میں اس قدر وسیع نوعیت کا علمی کام ہوچکا ہے اور معلومات کے کئی نئے ایسے ابواب دریافت ہوچکے ہیں جن تمام پر ایک فرد کا عبور رکھنا بھی مشکل نظر آتا ہے۔ اس لئے کئی افراد کے مجموعے سے مدد لے کر درست حقائق اور وسیع تر معلومات کی مدد سے اجتہاد کا عمل بروئے کار لایا جانا زیادہ بہتر ہوگا۔ بعض لوگ اس کی ضرورت یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ کسی ایک صاحب ِعلم کی شرعی رائے کے بجائے یہی رائے اگر کئی اہل علم کی مشترکہ کاوش کے نتیجے میں حاصل ہو تو اسے اسلامی معاشرے میں قبولِ عام زیادہ حاصل ہونے کا امکان ہوتاہے۔ اس بنا پر اجتماعی اجتہاد کی صورت میں اُمت ِمسلمہ میں فکری انتشار یا جدید مسائل کے بارے میں رہنمائی کا خلا پیدا نہیں ہوسکے گا اور مسلمان زیادہ یکسوئی سے کسی مسئلہ کے شرعی حل پر عمل درآمد کرسکیں گے۔ ’اجتماعی‘ اجتہاد کا مصداق جہاں تک اجتماعی اجتہادکے طریقہ کار کاتعلق ہے تو اس سلسلے میں ابھی کافی بحث مباحثہ کی
Flag Counter