ضرورت ہے۔ اجتماعی اجتہاد کے بارے قابل غور امور میں سے یہ بھی ہے کہ کن صورتوں کو اجتماعی قرار دیا جائے اور کن کو انفرادی کاوش سمجھا جائے۔ اجتماعی اجتہاد کے بارے میں پیش کی جانے والی مختلف آرا سے یہ تعین تو ضرور جاتا ہے کہ اس میں ایک سے زیادہ افراد شرکت کرتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں ہوتاکہ وہ سب عمل اجتہاد میں شریک ہوتے ہیں یا ان کا کردار صرف مشاورت یا معاونت تک محدود رہتا ہے۔ اجتماعی اجتہاد کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک سے زیادہ مجتہدین کسی مسئلہ کے بارے میں تبادلہ خیال کرکے اپنا اپنا شرعی موقف پیش کریں۔ دیگر صورتوں کو اجتماعی اجتہاد کہنا درست نہیں کیونکہ جہاںتک مشاورت و معاونت کا تعلق ہے تو اس نوعیت کا کام ہمیشہ سے مجتہدین کرتے آئے ہیں کہ پیش آمدہ مسئلہ پر دوسروں سے تبادلہ خیال کرلیا لیکن ان متعدد دلائل وآرا سے استفادہ ان کا انفرادی فعل ہوتا ہے اور وہ عمل اجتہاد میں منفرد ہوتے ہیں۔ یہ کام تو ماضی میں بھی ہوتا رہا لیکن اس پر کبھی اجتماعی اجتہاد کی اصطلاح نہیں بولی گئی۔ ایسے علمی تبادلہ خیال کی مثالیں خلفاے راشدین کے ہاں بھی پائی جاتی ہیں لیکن اس کے بعد شرعی رائے ان کی اپنی ہوتی جو اُنہی سے منسوب ہوا کرتی۔ آج کل ہمارے عدالتی نظام میں جج حضرات کا فیصلہ بھی اسی نوعیت کا ہوتا ہے، زیر سماعت اہم مقدمات میں فریقین کے وکلا کی بحثوں کے علاوہ دیگر ماہرین قانون سے بھی رہنمائی لی جاتی ہے لیکن اس مقدمہ کا فیصلہ بہرحال اکیلا جج ہی کرتا ہے اور یہ اُسی سے ہی منسوب ہوتا ہے، اسے کوئی اجتماعی فیصلہ قرار نہیں دیتا۔ البتہ جن صورتوں میں فیصلہ کرنے والے ججوںکی تعداد ایک سے زیادہ ہو تو وہاں یہ فیصلہ ’بنچ کا فیصلہ‘ کہلاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتاہے کہ مختلف معاونین، شاگردوں اور اہل علم کی آرا سے اخذواستفادہ کرکے کوئی ایک مجتہد اپنا فیصلہ کرے تو اسے اجتماعی اجتہاد قرار نہیں دیا جانا چاہئے۔ ٭ علاوہ ازیں بعض طبی مسائل میں ڈاکٹر حضرات یا غیر مسلم ماہرین سے معلومات حاصل کرنے کو بھی اجتماعی اجتہادباور کیا جاتاہے جبکہ ظاہر ہے کہ مجتہدانہ اوصاف مکمل نہ ہونے کی بنا پر اُصولی طورپر ہی انہیں اجتہادی رائے دینے کا اختیارہی نہیں ہوتا۔ |