Maktaba Wahhabi

74 - 77
اہل علم کی شرعی آرا کا تحفظ اجتماعی اجتہاد کا مصداق متعین ہوجانے کے بعد یہاں ایک اور اہم سوال اُبھرتا ہے کہ ایک سے زیادہ مجتہدین کی ایک موضوع پر ازخود متفقہ شرعی رائے اپنانے کی تائید اسلامی فقہی ذخیرے سے نہیں ہوتی۔ اسلام میں وہ وسعت اور جامعیت موجود ہے جس میں مختلف ذوق کے اہل علم پیش آمدہ مسئلہ کی اپنے انداز میں تحقیق وتطبیق کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دورِصحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی شرعی آرا میں اختلاف ہوتا رہا اور ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہم میں بھی اختلافی مسائل اتفاقی اُمور کی بہ نسبت کہیں زیادہ رہے ہیں۔جب ایک سے زیادہ مجتہدایک غیر منصوص مسئلہ میں غور وفکرکرکے شرعی رائے کی نشاندہی کی کوشش کریں گے تو ان میں اختلافِ رائے کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے!! اجتماعی اجتہاد کایہ اہم سوال ہے کہ ان کو متفق کرنے یا قریب قریب ملتی جلتی رائے پر لانے کے لئے کوئی طریقہ کار یا اُصول وضع کیا جاسکتا ہے نیز اس اُصول کی شرعی حیثیت کیا ہوگی؟ اس نکتہ کی وضاحت کے لئے اجتماعی اجتہاد کی کوششوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔ اجتماعی اجتہادکی بعض کوششیں ایسی ہیں جن کا مقصد پیش آمدہ مسئلہ پر اہل علم کو مشترکہ غور وخوض کی دعوت دینا ہے۔ ایسے اداروں میں پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل، جدہ کی مَجْمَع الفِقہ الاسلامي اور انڈیا کی اسلامک فقہ اکیڈمی وغیرہ کی مثال دی جاسکتی ہے۔ اسلام آباد میں اس موضوع پر ہونے والے سیمینار کے دوران اس نوعیت کے اداروں کی مشترکہ کاوشوں کے جائزہ کے دوران یہ امر سامنے آیا کہ ان کے ہاں اہل علم کے لئے فکری آزادی کی گنجائش موجود ہے اور اس کا تحفظ کیا جاتاہے۔ رابطہ عالم اسلامی کے زیرا ہتمام ۱۹۶۱ء سے قائم المَجْمَع الفقہي الاسلامي کا تعارف کراتے ہوئے جناب الطاف حسین لنگڑیال نے اس امر کی نشاندہی کی کہ اس کے بنیادی ضوابط میں اس امر کا تعین کیا جاچکا ہے کہ اس میں شرکت کرنے والے اہل علم کو اپنی شرعی رائے پر قائم رہنے کی آزادی حاصل ہوگی، ایسے ہی ان کے ۲۳ فیصلوں میں اختلافی آرا کا تذکرہ بھی کیاگیا ہے۔ یہی بات انڈیا کی اسلامک فقہ اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری جناب مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے سیمینار میں پیش کردہ اپنے مقالہ میں اکیڈمی کے طریق کار کی وضاحت میں تحریر کی ہے کہ
Flag Counter