Maktaba Wahhabi

69 - 77
”حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ نااہل مفتیوں کو منصب ِ افتا سے ہٹا دیں ،جیساکہ بنو اُمیہ کے حکمرانوں نے کیا۔ ایسے مفتیوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے خود تو راستے کا علم نہیں، لیکن دوسروں کو بتلاتا ہے کہ تمہیں اس راستہ پر جانا ہے یا اس اندھے کی سی ہے جو نمازیوں کو قبلہ بتلانے بیٹھ جائے یا اس اناڑی کی جو طب کے حروفِ ابجد سے بھی واقف نہیں، لیکن مطب کھول کربیٹھ جائے،بلکہ یہ شخص تو ان سب سے بدتر ہے۔ جب ایک حکمران جاہل اور نیم حکیم کو مطب کھولنے سے روکنا ضروری سمجھتا ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ وہ ان جاہلوں کو فتویٰ بازی سے روکے جو قرآن وسنت کے علم سے مطلقا ً بے بہرہ ہیں۔“ ( ایضاً) فقہاء حنفیہ نے ایسے مفتی کوالمفتي الماجن (بے شرم، کم سواد) مفتی کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ایسے کم سواد ، بے شرم اور نااہل مفتی پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ پوچھا گیا: کیوں؟ تو فرمایا: اس لئے کہ وہ فتویٰ کے ساتھ مذاق کرتا ہے ، یعنی وہ نااہل ہونے کے باوجود فتویٰ دیتا ہے۔“ اللہ اُمت ِمسلمہ کو ایسے مفتیوں کی شر سے محفوظ رکھے جنہوں نے فتویٰ دینے کے لئے آستینیں چڑھا رکھی ہیں۔ ان کی مثال ایسے بھیڑیوں کی ہے جنہوں نے بھیڑ کی کھال پہن رکھی ہو۔یہ لوگ اللہ کی ترجمانی اپنی خواہشاتِ نفس کے تحت کرکے اللہ پر بہتان قائم کرتے ہیں۔ البتہ بمقتضائے حال اگر کوئی طالب ِعلم کسی خاص مسئلہ کے بارے میں تحقیق کرتا ہے یا کوئی اورآدمی کتب سے استفادہ کرکے کسی مسئلہ کے بارے تحقیق کرتا ہے اور اس مسئلہ کے متعلق ائمہ کے اقوال اور دلائل کی چھان بین کرکے کسی نتیجہ پرپہنچ جاتا ہے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، کیونکہ اجتہاد بقولِ اہل علم کے جزوی بھی ہوسکتا ہے، یعنی ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی کو ایک خاص مسئلہ پراستیعاب وعبور حاصل ہو تو اسے اس مسئلہ پراجتہاد کرنے کا مجاز قرار دیا جاسکتا ہے… لیکن یہ اور طرز کا اجتہاد ہے۔ (3) دین کے بعض مسائل کو معمولی سمجھ کر ان میں بحث وتحقیق کا جوازنکالنا بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دین کے بعض مسائل بہت آسان ہیں، اس لئے ان مسائل میں گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی صورت یوں سمجھئے کہ بعض لوگ جو یا تو عامی قسم
Flag Counter