” جس نے قرآن مجید کے متعلق اپنی رائے سے کوئی بات کہی تو یقینا ا س نے بہت برا کیا۔“ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو زیر بحث موضوع کی زبردست دلیل ہے۔ اگر صحیح نہیں بھی تو پھر سنن ابن ماجہ کی ایک صحیح حدیث ہے،امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر نے بھی اسے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(من أفتى بفتيا غير ثبت فإنما إثمه علىٰ من أفتاه) ”جس کو غلط فتویٰ دیا گیا تو گناہ اس پر نہیں بلکہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔“ کیونکہ یہ مفتی بغیر علم اور دلیل شرعی کے بات کر رہا ہے۔ اس لئے اس کا اپنا گناہ بھی اپنے سر ہوگا اور جس کو وہ گمراہی کی طرف دھکیل رہا ہے، اس کا گناہ بھی اسی کے سر ہوگا۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے : ﴿ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيٍْرِ عِلْمٍ إِنَّ اللهَ لاَ يَهْدِيْ الْقَوْمَ الظَّالِمِيْنَ﴾ (الانعام:144) ”پھر اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی طرف منسوب کرکے جھوٹی بات کہے تاکہ علم کے بغیر لوگوں کی غلط راہنمائی کرے۔یقینا اللہ ایسے ظالموں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔“ تو معلوم ہوا کہ بغیر علم کے دینی معاملات میں طبع آزمائی کرنے والا اللہ کے ہاں سب سے بڑا ظالم ہے۔ اپنی ذات پر بھی ظلم ڈھا رہا ہے اور پوری اُمت اور معاشرے کو بھی تختہٴ ستم بنا رہا ہے اور روزِ قیامت یہ شخص سب کا بار اپنے کندھوں پر اُٹھائے ہوئے ہوگا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ لِيَحْمِلُوْا أوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَّوْمَ الْقِيٰمَةِ وَمِنْ أوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ ألَا سَآءَ مَا يَزِرُوْنَ﴾ (النحل:25) ”(ان کے اس طرزِ عمل کا نتیجہ یہ ہو گا) کہ قیامت کے دن پورا پورا اپنے گناہوں کا بوجہ اُٹھائیں گے اور اُن لوگوں کا بوجہ بھی جنہیں (اس قسم کے فتوے دے کر) یہ بغیر علم و روشنی کے گمراہ کرتے رہے، تو دیکھو، کیا ہی برا بوجھ ہے جو یہ اپنے اوپرلادے چلے جارہے ہیں۔“ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب أعلام الموقعين میں فرماتے ہیں: ”جو شخص اہل نہ ہونے کے باوجود مفتی بن بیٹھے ،وہ گناہگار اور نافرمان ہے اور جو حکمران ایسے شخص کو منصب ِافتا پرفائز کرتا ہے، وہ بھی گناہ میں برابر کا شریک ہے۔“ ( 4/317) امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : |