لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف یہ بات منسوب کرتے ہیں کہ وہ عاصی اور فاسق کو بھی اجتہاد کا اہل قرار دیتے ہیں، جبکہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے لوگوں کو خوب ہدفِ تنقید ٹھہرایا ہے اور انہیں فتویٰ دینے سے منع کیاجو فتویٰ دینے کے اہل نہ ہونے کے باوجود فتویٰ بازی کرتے ہیں ۔پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ عام آدمی کو اجتہاد کا مجاز قرار دیں۔“ (أعلام الموقعين: 4/217) اگر آپ ایسے لوگوں سے احتجاج کریں کہ بھئی آپ لوگ منصب ِافتا پر فائز ہونے کے اہل نہیں ہیں تو ان کا جواب یہ ہوگاکہ”کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان صحیح نہیں ہے کہ جب حاکم اجتہاد کرے، پھر اس کا اجتہاد درست ہو تو اس کو دو اجر ملیں گے اور اگر غلط ہو تو اس کو ایک اجر ملے گا۔ (صحیح بخاری:8/157 ومسلم؛ 1342) لہٰذا میں دو یا کم از کم ایک اجر سے اپنے کو محروم نہیں کرنا چاہتا۔ پھر آپ اس قدر پریشان کیوں ہیں؟کیوں مجھ پر اعتراض کرتے ہیں اور مجھے اپنے علم کے مطابق مسائل شرعیہ میں بات کرنے اور فتویٰ دینے سے کیوں روکتے ہیں؟“ لیکن درحقیقت مذکورہ بالا حدیث کا مصداق وہ شخص ہے جو درج ذیل دو شرائط کا حامل ہو : (1)پہلی شرط یہ ہے کہ وہ شخص عملی طور پر اجتہاد کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس کے لئے ضروری اہلیت کا معیار یہ ہے کہ وہ بے پایاں اور غیرمعمولی علم کا حامل شخص ہو۔ اس کی معلومات کا دائرہ انتہائی حد تک وسیع ہو۔ (2)دوسری شرط یہ ہے کہ وہ شخص پیش آمدہ مسئلہ کے اجتہاد میں اپنی پوری صلاحیت صرف کردے۔ اس شخص کامشہور ومعروف ہونا کافی نہ ہوگا، بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلہ کے بارے میں تمام فقہا کی آرا کو پیش نگاہ رکھے اور مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر غوروفکر کرے۔اگر کسی سے بحث مباحثہ اور پوچھنے کی ضرورت پڑ جائے تو کسی طرح کا عار محسوس نہ کرے، حتیٰ کہ حق اس کے سامنے واضح ہوجائے۔ اس کے بعد فتویٰ دے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اس صورت میں وہ مذکورہ حدیث کا صحیح مصداق اور اجر کا مستحق ہو گا ۔ لیکن اگر مذکورہ شرائط اس میں نہیں تو ایسا شخص گناہگار ہوگا خواہ اس کا فتویٰ درست ہی کیوں نہ ہو، کیو نکہ اس کا درستگی کو پالینا ایک اتفاقیہ امر تصور ہوگا، اس لئے وہ دونوں حالتوں میں گناہ کامرتکب ہوگا۔اس کی دلیل پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ(من قال في القرآن برأيه فقد أخطأ) |