(1) وہ شخص خالص نیت کا حامل ہو۔ جس شخص کی نیت خالص نہ ہوگی، نہ اسے خود نورانیت حاصل ہوگی اور نہ اس کے کلام میں نورانیت ہوگی۔ (2) دوسری شرط یہ کہ وہ شخص حلم و بردباری اور وقار و شائستگی جیسی صفات سے آراستہ ہو اور پورے دینی ڈھانچہ پراس کی تفصیلی نظر ہو۔مطلب یہ ہے کہ ایک مفتی کو ایسے بلند اخلاق سے متصف ہونا چاہیے جو اسے لوگوں کی نظروں میں قدوة اور نمونہ بنا دیں۔ وہ لوگوں کے ہاں ثقاہت کا معیار بن جائے کہ وہ شریعت کے معانی کی جو تعبیر و تشریح کرے، لوگ بلاجھجک اسے قبول کرلیں۔ (3) تیسری شرط یہ کہ جو علمی ڈھانچہ اس کے پاس ہے، اس پر اس کی گرفت مضبوط ہو۔ مطلوبہ مسائل شرعیہ پر اسے مکمل عبور اور قدرت حاصل ہو۔ اسے یہ معلوم ہو کہ ہمارا دین کیا ہے، اس کی عبادات کس ڈھب کی ہیں، عقائد کیاہیں اور اخلاق ومعاشرت کی کیا نوعیت ہے۔ (4) کفایت شعاری مفتی کا نمایاں وصف ہونا چاہئے کہ جو کچھ لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اس سے وہ اپنے آپ کو بالکل مستغنی اور بے نیاز کرلے، وگرنہ وہ لوگوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کے رہ جائے گا۔ (5) مفتی کیلئے پانچویں شرط یہ ہے کہ وہ زمانے کے حالات او رلوگوں کی طبائع سے خوب واقف ہو تاکہ ان کے حیلوں اور مکاریوں کوسمجھ سکے۔سچے اور جھوٹے میں تمیز کرسکے اورکسی کی تیز طراری اورمکروفریب سے دھوکہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔ (أعلام الموقعين: 4/199) ان شرائط کی اہمیت کے پیش نظرائمہ کرام خود بھی حتیٰ الوسع فتویٰ دینے سے اجتناب کرتے اور دوسروں کوبھی بغیر علم کے فتویٰ دینے سے منع کرتے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب أعلام الموقعين میں لکھتے ہیں کہ ”ہمارے شیخ (علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ) ان لوگوں سے شدید نفرت کا اظہارکرتے تھے جوبغیر علم کے فتویٰ دینے اور شرعی علوم میں زبان کھولنے کی جسارت کرتے۔ لوگ اُنہیں کہا کرتے کہ کیا آپ کو اللہ تعالیٰ نے ان مفتیوں کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی ہے؟ تو آپ نے فرمایا:”جب روٹیاں پکانے والے باورچی پر داروغہ مقرر ہے تو جاہل مفتیوں کو کیوں آزاد چھوڑ دیا جائے۔“ |