Maktaba Wahhabi

65 - 77
جائے جو اسے افتا جیسے منصب ِجلیل کا اہل ثابت کرسکے۔ (2)مکلف ہونا: وہ شخص جو تکلیف شرعی کی عمر کونہ پہنچا ہو، وہ فتویٰ نہیں دے سکتا۔ (3) عدالت: فاسق انسان خواھ اس کا فسق قولی ھو یا فعلی ھو یا اعتقادی؛ ایسے شخص کے فتویٰ کو قبول کیا جائے گا، نہ اس کی بات سنی جائے گی۔ یہ تین شرائط: مسلمان ہونا ، مکلف ہونا، عادل ہونا تمام علما کے نزدیک متفقہ ہیں اور علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ مفتی اور شرعی مسائل میں بات چیت کرنے والے میں ان شروط کا پایا جانا ضروری ہے۔ان کے علاوہ چند شروط اور ہیں جن میں علما کا اختلاف ہے : مفتی کی بات کو صرف اس صورت میں قبول کیا جائے گا،جب وہ مجتہد ہو۔مجتہد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص کا کامل علم رکھتاہو، علومِ لسانی پر عبور رکھتا ہو، اس کی اُصولِ فقہ پر نظر ہو، مسائل اجماعیہ سے واقفیت رکھتا ہو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی قول اجماع کے خلاف ہو اور اسے معلوم ہی نہ ہو۔ مزید برآں تاریخ، فقہ، ائمہ و مجتہدین کے اختلافات اور ان کے مسلک و دلائل سے بھی آگاہ ہو، تاکہ وہ ائمہ وعلما کے اختلافات کی گتھیاں سلجھا کر اس میں سے راجح اور مرجوح کا امتیاز کرسکے۔ بعض نے یہاں ایک اور شرط کا اضافہ کیا ہے کہ مفتی فطرتِ سلیمہ کا حامل اور غیر معمولی ذہنی سلجھاؤ رکھتا ہو اور اس لائق ہو کہ زیر بحث مسئلہ پر تمام سمتوں سے غوروفکر کرسکے جو اس مسئلہ کوسلجھانے میں ممدومعاون ہوسکیں۔ مفتی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک خاص ذہنی معیار کا مالک ہو۔ اصابت ِرائے اور پوری ثقاہت کے بغیر اس کے لئے اس وادیٴ پرخار میں قدم رکھنا خطرہ سے خالی نہیں۔امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تعبیر یوں کرتے ہیں کہ ”مفتی کیلئے ضروری ہے کہ وہ فطری لحاظ سے فقیہ ہو۔ یعنی وہ بہت بیدار مغز، نہایت متنبہ اور اعلیٰ درجہ کا ذہین انسان ہو۔ حالاتِ حاضرہ پر اس کی گہر ی نظر ہو، لوگوں کے حیلوں اور ان کی مکاریوں کو خوب جانتا ہو اور نہایت احسن طریقے سے حق تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو۔“ اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ان شرائط کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب تک کسی میں درج ذیل پانچ اوصاف نہ ہوں، وہ مفتی بننے کا اہل نہیں ہو سکتا :
Flag Counter