قباحتوں کی روک تھام کیونکر ہوسکے گی؟ یہ معمولی کام نہیں کہ ہر شخص اس سے عہد ہ برا ہوسکے۔ کوئی بھی شخص ماہر علما کرام اور مفتیانِ عظام سے کسی طرح بھی بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ وہ علما جو وسیع مہارت اور طویل تجربہ کے حامل ہیں اور جن کی زندگیاں کتب کی ورق گردانی میں گھپ گئیں اور علم کا کوئی گوشہ ان سے مخفی نہیں ہے۔ (2) دعویٰ اجتہاد اللہ تعالیٰ کے بارے میں بغیر علم کے بات کرنے کی دوسری صورت دعویٰ اجتہاد ہے۔ معاملہ صرف شرعی علوم میں بحث و مباحثہ تک محدود نہیں رہا، بلکہ معاملہ اس سے بہت آگے بڑھ گیا ہے اور وہ یہ کہ اب ہر شخص مجتہد ہونے کا دعویدار ہے۔ اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا ہے، جیساکہ بعض لوگوں کی طرف سے اعتراض کیا جاتاہے کہ ”دیکھو ! فلاں نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا …!!“ ”کیا آپ لوگوں کی عقلوں پر پابندی لگانا چاہتے ہیں…!!“ تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں اور بعض ہم عصر مصنّفین بھی ہمارے ہم نوا ہیں، کہ اجتہاد کا دروازہ کھولا نہیں گیا بلکہ اسے بالکل توڑ دیا گیا ہے۔ اس کے کواڑ ہر ایک کے لئے کھول دیے گئے ہیں اور ہر شخص اس میں داخل ہونے کے لئے آزاد ہے، خواہ وہ اجتہاد کا اہل ہو یا نہ ہو۔ درحقیقت ایسے لوگ اجتہاد کے دعویدار بن بیٹھے ہیں جنہیں سوائے اس کے نام کے کچھ معلوم نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کااجتہاد درست ہوگا تو دوہرے اجر کے مستحق ہوں گے، اگر غلط ہوگا تو ایک اجر کے مستحق ہیں۔ حالانکہ یہ لوگ اس حدیث کے اصل مفہوم سے واقف نہیں ہیں۔ دراصل یہی لوگ حدیث (من كذب على متعمدًا)کے صحیح مصداق ہیں ۔ مقامِ افسوس ہے کہ ہر شخص اجتہاد کا مدعی ہے ،جبکہ اجتہاد تو دور کی بات، علما نے توفتویٰ دینے کے لئے بھی شرائط مقرر کی ہیں۔ چنانچہ وہ شرائط ملاحظہ فرمائیے جن کا ایک مفتی میں پایاجانا ضروری ہے : (1)اسلام:کافر اور مرتد کو یہ حق نہیں کہ وہ شرعی مسائل میں گفتگو کرے حتیٰ کہ وہ مسلمان ہوجائے یا ارتداد سے توبہ کرلے، پھر تعلیم حاصل کرے یہاں تک کہ وہ علم کے اس مرتبہ پر پہنچ |