Maktaba Wahhabi

63 - 77
ہے۔“ (سنن ابو داود: 1/93 وغیرہ) یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ عاجز اور جاہل شخص جو سرمایہٴ علم سے محروم ہے،ا س کے لئے طریقہ کار یہ ہے کہ وہ کسی سے دریافت کرلے۔ ٭ اسی طرح حدیث میں ایک ملازم کا قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص کسی کے ہاں ملازم تھا ۔ اس نے مالک کی بیوی سے زنا کرلیا۔ ملازم کے باپ نے لوگوں سے سوال کیا تو اُنہوں نے کہا:تیرے بیٹے کو سنگسار کیا جائے گا۔ اس کے بعد اس نے علما سے سوال کیا تواُنہوں نے فتویٰ دیا: تیرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے اور اس عورت کو رجم کیا جائے گا۔ اس کے بعد وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کی اطلاع دی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اہل علم سے سوال کرنا درست تسلیم کیا اورعلما کے اس فتویٰ پر اعتماد کیا، باوجود یکھ زمانہٴ نبوت تھا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان موجود تھے۔ (بخاری مع الفتح: 12/121 ومسلم:1697) یہ احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ لوگوں کے لئے حلال و حرام کو پہچاننے کا درست طریقہ یہی ہے کہ وہ اہل علم کی طرف رجوع کریں۔ جب ہم اہل علم کی طرف رجوع کرنے کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی شخص صاحب ِعلم، مطالعہ کا حامل ہونے کے باوجود جو جواب ملے، اس پراندھا اعتماد کرتے ہوئے آنکھیں بند کرلے۔ بلکہ ایسے صاحب ِعلم شخص کے لئے ضروری ہے کہ عالم جو فتویٰ دے، اس پر اس سے مناقشہ کرے، اس کے سامنے اس فتویٰ کے مدمقابل دوسرا قول پیش کرے۔ اس سے دلیل کا مطالبہ بھی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے !! اس لئے ضروری ہے کہ مسائل شرعیہ کے متعلق بات نہایت ٹھوس اور رطب و یابس سے بالکل پاک ہونی چاہئے۔ ہر شخص کو یہ اختیار نہیں دیاجاسکتا کہ وہ بغیر کسی قید و شرط کے شتر بے مہار شرعی مسائل کو اپنی انکشاف و تحقیق کا تختہٴ مشق بنائے۔ وگرنہ پھر وہی صورت ہوگی کہ ہر شخص شرعی مسائل میں فتویٰ بازی کا بازار گرم دے گا،یہ سوچے بغیر کہ آیا وہ اس منصب کا اہل ہے؟ اس کے پاس علم کی اتنی پونجی ہے جو اسے منصب ِاجتہاد پر فائز کرسکے؟ توپھر خود ہی بتائیے کہ ملحدانہ اجتہاد کے اشہب ِتیز رو کو کون روک سکے گا اور تشریع جدید اور وضع دین کی
Flag Counter