قرار دینے سے ذرا باک محسوس نہیں کرتے اور ہوائے نفس کے تقاضوں سے مجبور ہو کر احادیث اور شرعی احکام کی تفسیر کرنے بیٹھ جاتے ہیں اور ستم یہ کہ کتب ِشروحات یا اس کے بارے میں علما کے اقوال کو ایک نظر دیکھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دومقامات پر یہ تاکید فرمائی ہے، پہلے سورة نحل میں اور پھر سورة انبیاء میں کہ ﴿ فَاسْئَلُوْا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43) ”(مسلمانو!) اگر تم خود نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو۔“ یہاں اہل ذکر سے مراد علما ہیں اور شریعت ہمیں اس بات کا پابند کرتی ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو، اس شخص سے پوچھا جائے جو اس بارے میں مستند ہو۔اگر وہ طبی مسئلہ ہو تو اطبا سے پوچھنا چاہئے۔ اگر مسئلہ لغوی ہے تو کسی ادیب یا شاعر سے پوچھا جائے۔ اگر شریعت کا مسئلہ ہو تو علماءِ شریعت سے پوچھنا چاہئے اور یہی لوگ اہل ذکر ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے آیت: ﴿فَاسْئَلُوْا أهْلَ الذِّكْرِ﴾میں کیاہے۔ جس طرح ایک فقیہ سے طب کا کوئی مسئلہ پوچھنا مناسب نہیں ہے، ایسے ہی کسی ڈاکٹر سے شریعت کا مسئلہ پوچھنا بھی قطعی مناسب نہیں۔ نہ ہی کسی ادیب، شاعر یا صحافی سے شریعت کا کوئی مسئلہ پوچھا جاسکتا ہے۔ یقینایہ لوگ ہمارے لئے قابل احترام ہیں۔ یہ حضرات بھی معاشرے کی ترقی اور اس کے اخلاق کی تہذیب اور نوجوان نسل کی تادیب میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن یہ لوگ شرعی علوم کے ماہر نہیں، اس لئے ان سے شرعی مسئلہ پوچھنا بے جا ہوگا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا جنہوں ایک موقع پر بغیر علم کے فتویٰ دیا تھا۔ وہ طویل حدیث ہے جس کا حاصل قصہ یہ ہے کہ ” ایک صحابی کسی جنگ میں شریک تھا کہ اس کو پتھر لگا اور اس کا سر زخمی ہوگیا۔ اسی دوران وہ جُنبی ہوگیا۔ تو اس نے اپنے ساتھیوں سے دریافت کیاکہ اب وہ کیا کرے؟ ساتھیوں نے اسے غسل کرنے کامشورہ دیا۔ اس نے غسل کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا زخم بگڑا اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کا علم ہوا تو فرمایا: خدا ان کو ہلاک کرے ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔ جب مسئلہ معلوم نہیں تھا تو پوچھ کیوں نہیں لیا، لا علمی کا علاج دریافت کرلینا ہی تو |