ہے جس کی روشنی میں وہ مسئلہ کا صحیح کھوج لگا سکے۔ یہاں ہم اسی قسم کے ایک محقق کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جس نے ایک مشہور و معروف مجلہ میں ایک طویل مضمون لکھا۔مضمون کا عنوان تھا: ”صحیح بخاری میں جو کچھ ہے، وہ سب کا سب صحیح نہیں ہے!“ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس کا یہ دعویٰ اس کے قلت ِمطالعہ کاغمازہے اور اس کے پاس علم کا اتنا سرمایہ نہیں جو اس کے سامنے حقیقت کو واضح کرسکے!! اپنے دعویٰ کے ثبوت میں اس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وہ روایت پیش کی جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ(كان صلی اللہ علیہ وسلم يأمرنى فأتّزر فيباشرني وأنا حائض) ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تہبند باندھنے کا حکم دیتے اور اس کے بعد مجھ سے مباشرت کرتے درآنحالے کہ میں حائضہ ہوتی۔“ (بخاری مع الفتح: 1/ 403) علم حدیث سے معمولی شناسائی رکھنے والا انسان بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ یہاں مباشرت سے مراد جماع سے ماسوا باقی جسم سے استمتاع ہے۔ کیونکہ حدیث میں نہیں، کیونکہ یہ قرآنِ کریم کی اس آیت سے متعارض ہے : ﴿وَيَسْألُوْنَكَ عَنْ الْمَحِيْضِ قُلْ هُوَ أذًىٰ فَاعْتَزِلُوْا النِّسَاءَ فِيْ الْمَحِيْضِ وَلاَ تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى يَطْهُرْنَ﴾ (البقرة:222) ”پوچھتے ہیں کہ حیض کا کیا حکم ہے؟ کہو وہ ایک گندگی کی حالت ہے۔ اس میں عورتوں کے قریب نہ جاؤ اور ان سے الگ رہو جب تک کہ وہ پاک صاف نہ ہوجائیں۔“ چنانچہ جب کوئی شخص اصل مصادر، شروحاتِ حدیث ، ائمہ کے اقوال اور معتمد کتب سے بے نیاز ہو کر مسائل کو جانچنے کی کوشش کرے گا تو ظاہر ہے کہ وہ بڑی آسانی سے اس قسم کی فاش غلطیوں بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک غلطیوں کا شکار ہوجائے گا۔ افسوس صد افسوس کہ لوگ احادیث ِنبویہ اور فقہی مسائل کو اپنی آرا کا تختہٴ مشق بنانے اور احادیث ِنبویہ کو صحیح اور ضعیف قرار دینے، فقہی مسائل کو حلال و حرام ،مستحب ، مکروہ اور مباح |