وسنت کی نصوص کو جاننا اوران کے الفاظ کی دلالت اور معانی کو سمجھنا علما کے بغیر ممکن نہیں ہے!! تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگوں کو دنیاوی معاملات میں تو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے، لیکن دینی معاملات میں اس سے نابلد کیوں ہیں؟ مثال کے طور پر اس دور میں لائبریریاں طبی کتب سے کچھا کھچ بھری ہوئی ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں طبی پمفلٹ، کتابچے اورجرائد دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکے ہیں۔ بے شمار ایسے مراکز ہیں جو طبی کتب و رسائل کی طباعت واشاعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ طبی تصاویر، رپوٹوں، انڈکس اور اعدادوشمار پر مشتمل یہ بے شمار کتابیں جو آئے دن جدید اور ٹیکنیکل طرز پر ہمارے سامنے آرہی ہیں، کیا لوگوں کو ریسرچ اور ڈاکٹروں سے بے نیاز کر دیں گی؟ کیا ہسپتال اور کلینک اور پریکٹس کے مراکز کھولنے کی ضرورت ختم ہوجائے گی؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا اور آپ یہ ماننے پر مجبور ہوں گے کہ اس قسم کے ہسپتال، کلینک اور پریکٹس مراکز کھولنے کی ضرورت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ آخر کیوں؟ اس لئے کہ کاغذ کے یہ اوراق ہماری ضرورت پوری نہیں کرسکتے اور ان اوراق سے ایک سپیشلسٹ ڈاکٹرہی صحیح معنوں میں استفادہ کرسکتا ہے۔ رہے عامة الناس تو وہ اس سے کسی حد تک توفائدہ حاصل کرسکتے ہیں،لیکن ان میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو عام معلومات کے ذریعے نسخہ تجویز کرنے اور مریض کا علاج کرنے کے قابل ہوجائیں،پھر بھی ہمیشہ ایسے نہیں ہوتا، لہٰذا ہم میڈیکل اورطبیہ کالجوں، تحقیق اور ریسرچ کے خصوصی طبی مراکز اور اس سلسلے میں جو کاوشیں ہو رہی ہیں ، ان سے مستغنی نہیں ہوسکتے۔ جب بات اس طرح ہے تو پھر ہم کیسے یہ مان لیں کہ محض قرآن اورکتب ِحدیث میں شرعی نصوص کا پایا جانا ہی عام و خاص سب کو کافی ہوجائے گا اور انہیں علما سے پوچھنے پچھانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی اور ہم یہ کیسے تسلیم کر لیں کہ ہر مسلمان کسی بھی مسئلہ میں محض اس بنا پر کہ وہ ایک نص سے واقف ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ نص اسی مسئلہ کے متعلق ہے، اسے کھلی چھٹی دے دی جائے کہ وہ جیسے چاہے فتویٰ سازی کرتا پھرے اور محض اپنی مرضی یا ہوائے نفس کے تقاضے سے انکشاف و تحقیق کا بازار گرم کردے، حالانکہ اس کے پاس علم و فضل کی اتنی پونجی نہیں |