کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے۔ مذکورہ دلائل یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ بغیر علم کے اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی بات کرنا علیٰ الاطلاق ایک سنگین جرم اور عظیم گناہ ہے۔کیونکہ در حقیقت یہی گناہ تمام گناہوں کی جڑ ہے، حتیٰ کہ شرک ایسے ظلم عظیم کا سبب بھی یہی گناہ ہے ۔ اس لئے مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس سنگین جرم کا ارتکاب کرے۔ اب ہم اللہ کے متعلق بغیر علم کے بات کرنے کی وہ صورتیں بیان کرتے ہیں جن میں آج اکثر لوگ ملوث ہوچکے ہیں۔ وہ صورتيں جو علم كے بغير اللہ پر جهوٹ باندهنے كا مصداق ہيں (1) علما سے استغنا اس دور میں اجتہاد کی ارزانیوں نے ہر جاہل اور زبان و ادب سے نابلد کو اجتہاد و قیاس پر جسو ر کردیا ہے۔ آج کل جو لوگ اُمورِ شریعت میں غوروخوض اور بحث و تحقیق میں کود پڑے ہیں، ان کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اگرچہ زبان کی روانی، عبارت کی شستگی اور اُسلوب کی عمدگی سے بہرہ ور ہے، لیکن شریعت کے صحیح علم سے اُنہیں دور کا بھی واسطہ نہیں۔ وہ فہم وبصیرت اور شرعی علوم پر مکمل دسترس حاصل کئے بغیر اور کتاب و سنت کے دلائل صحیحہ کا سہارا لئے بغیر اُمورِ شریعت میں عجیب و غریب موشگافیاں کررہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اسلام میں عیسائیت کی طرح ملائیت اور تھیاکریسی کا تصور نہیں ہے۔ اس لئے ہر کسی کو دین کے متعلق بات کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہاں یہ درست ہے کہ اسلام میں کسی خاص طبقہ کی دین پراجارہ داری نہیں ہے کہ اس کے سوا کسی اور کو شریعت کے بارے بات کرنے کا حق حاصل نہ ہو، بلکہ ہر مسلمان کویہ حق حاصل ہے، بشرطیکہ اس میں وہ شرائط موجود ہوں جو شرعی اُمور میں بات کرنے کا لازمی تقاضا ہیں۔ یہ راستہ سب کے لئے کھلا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ شریعت کو مباح گھاس سمجھ لیا جائے اور جو مرضی اس پر منہ ماری کرتا پھرے۔ مانا کہ اسلام میں پروہت اورملائیت کا تصور نہیں لیکن اسلام میں شریعت کی مہارت کا تصور ضرور پایا جاتا ہے۔ کتاب |