(3)بغیر علم کے شرعی مسائل میں کلام کرنے کی حرمت: یعنی حلال و حرام ، احکام، واجبات اور محرمات میں اس وقت تک فتویٰ دینا حرام ہے، جب تک کہ اس پر قرآن و سنت کی کوئی نص یا ائمہ فقہا کی آرا دلالت کناں نہ ہوں۔ پھر ہر شخص کو نص شرعی کی تعبیر و وضاحت کرنے کاحق نہیں دیا جا سکتا،بلکہ یہ حق صرف اس کو تفویض کیا جاسکتا ہے جو پختہ عالم ہو اور تمام نصوصِ شرعیہ پر اسکی نظر ہو۔اللہ تعالیٰ نے بغیر علم کے فتویٰ دینے کی حرمت کاذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَا تَصْفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلَالٌ وَّهٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلىٰ اللهِ الْكَذِبَ إِنَّ الَّذِيْنَ يَفْتَرُوْنَ عَلىٰ اللهِ الْكَذِبَ لَايُفْلِحُوْنَ﴾ (النحل:116) ”اور (دیکھو) ایسا نہ ہو کہ تمہاری زبانوں پر جو جھوٹی بات آجائے، بے دھڑک نکال دیا کرو اور اپنے جی سے ٹھہرا کر حکم لگا دو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ اس طرح حکم لگانا اللہ تعالیٰ پر افترا پر دازی کرنا ہے اور یاد رکھو، جو لوگ اللہ پرافترا پردازیاں کرتے ہیں وہ کبھی فلاح پانے والے نہیں۔“ اسی طرح فرمایا: ﴿وَلاَ تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِه عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُوٴَادَ كُلُّ أُوْلٰئِكَ كَانَ عَنْه مَسْئُوْلًا﴾ (الاسراء:26) ”اور دیکھو جس با ت کا تمہیں علم نہیں، اس کے پیچھے نہ پڑو۔ یاد رکھو !کان، آنکھ، عقل، ان سب کے بارے میں باز پرس ہونے والی ہے“ اور مشرکین کے بارے میں فرمایا : ﴿وَإِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْهَا آبَاءَ نَا وَاللهُ أمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللهَ لاَ يَأمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أتَقُوْلُوْنَ عَلىٰ اللهِ مَالاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف:28) ”اور یہ لوگ (مشرکین عرب) جب بے حیائی کی باتیں کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے بزرگوں کوایسا کرتے دیکھا ہے اور اللہ نے ایسا ہی کرنے کا ہمیں حکم دیا ہے۔ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! تم کہہ دو، اللھ کبھی بے حیائی کی باتوں کا حکم نہیں دے گا ۔کیا تم اللہ کے نام پرایسی بات کہنے کی جرأت کرتے ہو جس کے لئے تمہارے پاس کوئی علم نہیں۔“ اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے دعویٰ کا انکار کرتے ہوئے فرمایاکہ وہ اللہ پر ایسا بہتان لگا رہے ہیں جسے وہ جانتے تک نہیں۔ ان لوگوں کا وطیرہ یہ تھاکہ جب یہ کوئی کام کرتے اور پھراُنہیں یہ کا م اچھا لگتا تو اسے بار بار کرتے۔ جب اُنہیں منع کیا جاتا تو فوراً کہتے کہ خدا نے ایسا ہی |