Maktaba Wahhabi

56 - 77
سے ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی کہ حدیث یا فتویٰ کی ذمہ داری اس کا کوئی دوسرا بھائی قبول کرلے۔“ (سنن دارمی: 1/49) غور فرمائیے کہ ایک سو بیس ممتاز اور کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اور ہیں بھی بڑی عمر کے اور پھر علم کے بحر ذخار، لیکن فتویٰ دینے سے گریز کا یہ عالم کہ ہر ایک یہ آرزو کرتا ہے کہ کاش کوئی دوسرا اس ذمہ درای کو اُٹھا لے۔ (2) امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ” امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ جب تم لوگوں سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو تمہارا طریقہ کار کیا ہوتاہے؟ تو کہا: تو نے ایک باخبرشخص سے سوال کیا ہے، لہٰذا سن، پھر فرمایا کہ جب ہم میں سے کسی سے کوئی سوال کیا جاتا تو وہ خود فتویٰ دینے کی بجائے اپنے ساتھی سے کہتا آپ فتویٰ دیں۔علیٰ ہذا القیاس وہ اسی طرح پوچھتا پچھاتاپہلے کے پاس لوٹ آتا۔“ (ایضاً) یہ غایت درجہ احتیاط کیوں تھی؟ اس لئے کہ وہ خوب جانتے تھے کہ بغیر علم کے فتویٰ دینا اور اللہ تعالیٰ کے متعلق زبان کھولنا کتنابڑا گناھ اور کتنا سنگین جرم ہے۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے جا بجا اس جرم کی سنگینی کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ایک مقام پر فرماتے ہیں : ”اللہ پر کوئی بات بنا لینا اور فتوؤں اور فیصلوں میں بغیر علم کے زبان کھولنا یہ تمام حرام کاموں سے بڑھ کرحرام ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأنْ تُشْرِكُوْا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِه سُلْطَانًا وَّأنْ تَقُوْلُوْا عَلىٰ اللهِ مَالاَ تَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف:33) ”اے پیغمبر !ان لوگوں سے کہو، میرے پروردگار نے جو چیزیں حرام ٹھہرائی ہیں،وہ تو یہ ہیں: بے حیائی اور بے شرمی کے کام، خواہ کھلے طور پر ہوں یا خفیہ ۔نیز گناہ کی باتیں، ناحق کی زیادتی اوریہ کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی سند نہیں اُتاری اور یہ کہ اللہ کے نام کوئی سے ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں کوئی علم نہیں۔“ (اعلام الموقعین: 1/10) یہاں اللہ تعالیٰ نے پانچ حرام کاموں کاذکر کیا ہے، جن کی حرمت پر تمام شرائع سماویہ متفق ہیں اور ان پانچوں کو سنگینی حرمت کے اعتبار سے بالترتیب سے ذکر کیا ہے اور سب سے آخر میں اس کو ذکر کیا جو سب سے بڑھ کر حرام ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کرنا
Flag Counter