علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تصنیف کا نام أعلام الموقعين عن رب العالمين بھی اس لئے رکھا کہ یہ امرواضح کر دیا جائے کہ شرعی مسائل میں فتویٰ دینے والا گویا اللہ کا ترجمان ہے۔ وہ ربّ کا نائب بن کر شرعی مسئلہ پر دستخط کرتا ہے۔ مفتی کی مثال اس وزیر کی سی ہے جسے ایک حاکم یا بادشاہ اپنا قلم دان سونپ دیتا ہے۔ اس طرح مفتی بھی اللہ کے قلم دان کا وارث ہے اور جس مسئلہ کے بارے میں سمجھتا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ہے، اس کا اظہار کردیتا ہے۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں: ” جب بادشاہ کے سیکرٹری کا عہدہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے ،جس سے کسی کو مجالِ انکار نہیں اوریہ نہایت قابل رشک عہدوں میں سے ایک عہدہ ہے۔ پھر تم خود ہی اندازہ کرو کہ مالک ارض و سماوات کے قلم دان کی وزارت کا عہدہ کس قدر اہمیت کا حامل ہوگا؟ (الاحکام: 29) ”چونکہ ایک مفتی اللہ تعالیٰ کی وزارت و قلمدان پر فائز ہوتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ منصب ِافتا نہایت عظیم منصب ہے ۔ لیکن یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ منصب جہاں ایک بہت بڑا شرف ہے، وہاں یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بذاتِ خود قرآن میں اکثر مواقع پر عہدۂ افتا کواپنے ہاتھ میں لیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿يَسْتَفْتُوْنَكَ قُلِ اللهُ يُفْتِيْكُمْ…﴾ (النساء:176) ”وہ تجھ سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہہ دیجیے ، اللہ فتویٰ دیتا ہے تم کو…“ (اعلام الموقعین: 1/10) یہاں اللہ نے خود فتویٰ دیا ہے اور افتا کواپنی ذاتِ مقدسہ کی طرف منسوب کیا ہے۔ افتاکی ذمہ داری اس قدر بڑی ہے کہ سلف صالحین فتویٰ میں حد درجہ گریز کرتے تھے اور ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ فتویٰ کی ذمہ داری کوئی دوسرا قبول کرلے ۔اس کے متعلق امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں جو کچھ ذکر کیا ہے، وہ اس موضوع کا ایک باب ہے، وگرنہ تواس موضوع پرمکمل جلد بن سکتی ہے کہ سلف صالحین فتویٰ دینے میں کس قدر پرہیز کرتے تھے۔ امام دارمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس ضمن میں باب من ھاب الفتیا کے تحت بے شمار نصوص ذکر کی ہیں۔ میں صرف دو روایات پر اکتفا کروں گا: (1)ثقہ اور مشہور تابعی عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا ہے : ” میں نے ایک سو بیس صحابہ رضی اللہ عنہم کو دیکھا،جب ان سے کوئی حدیث یا فتویٰ پوچھا جاتا تو ان میں |