سے بچنے میں ہی ہے تو کموڈ سے بچنا بھی واجب ہے۔ تاہم اس کے جواز کی ایک صورت ہے کہ اگر اس پر بیٹھ کر قضاے حاجت کے دوران نجاست یا پیشاب کے چھینٹوں سے بچنا یقینی ہو تو ہمارے علم کے مطابق کوئی اور ایسا سبب نہیں جس بنا پر اسے ناجائز قرار دیا جائے۔ البتہ بہتر اور صحت بخش طریقہ وہی ہے جو فطری ہے اور جسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنایا ہے۔ جدید ریسرچ کے مطابق اگر اس فطری طریقے کے مطابق قضاے حاجت کے لئے بیٹھا جائے تو اپنڈے سائیٹس(Appendesitis)، دائمی قبض، بواسیر(Piles)، گردوں کے امراض، گیس، تبخیر اور بدہضمی وغیرہ جیسے امراض ختم ہوجاتے ہیں۔ (سنت ِنبوی اور جدید سائنس: 1/190) علاوہ ازیں ایک روایت میں ہے کہ حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”علَّمنا رسول الله في الخلاء أن نقعد على اليسرٰى وننصب اليمنٰى“ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاے حاجت کی تعلیم دیتے ہوئے ہمیں فرمایا کہ ”ہم بائیں پاوٴں پر وزن دے کر بیٹھیں اور دائیں کو کھڑا رکھیں ( یعنی اس پر کم بوجھ ڈالیں)“ (بیہقی:1/96) اگرچہ سنداً اس روایت میں ضعف ہے، لیکن اس میں مذکور طریقہ قضائے حاجت حکمت سے خالی نہیں، جیساکہ اس روایت کی شرح کرتے ہوئے مولانا صفی الرحمن مبارکپوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ”اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں پاوٴں پر بیٹھنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کا معدہ بائیں طرف ہوتا ہے۔بائیں پاوٴں پر بیٹھنے سے اخراجِ فضلہ میں سہولت اور آسانی ہوتی ہے۔“ (شرح بلوغ المرام:1/93) لامحالہ یہ فائدہ بھی انسان کو تب ہی حاصل ہوسکتا ہے،جب وہ کموڈ پر نہیں بلکہ ٹائلٹ پر قضاے حاجت کررہا ہو، کیونکہ کموڈ پر اس طرح بیٹھنا ممکن ہی نہیں۔ خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ قضائے حاجت کے لئے سب سے بہتر فطری طریقہ کے مطابق عام ٹائلٹ کا استعمال ہے، لیکن اگر کموڈ کی بھی کہیں ضرورت پیش آجائے اور پیشاب کے چھینٹوں |