”پانی کے ساتھ استنجاکرنا واجب نہیں ہے، جیسا کہ عوام یہ گمان رکھتے ہیں۔“ لہٰذا پانی کے علاوہ ڈھیلوں کااستعمال بھی مباح و درست ہے اور عہد ِرسالت میں نبی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اکثر اوقات انہی سے استنجا کیا کرتے تھے، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ نبی نے قضاے حاجت کیلئے جاتے ہوئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو تین پتھر لانے کا حکم دیا۔ (بخاری:152) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی نے پانی کے علاوہ مٹی کے ڈھیلوں سے ہی بالآخر کیوں استنجا کیا؟ یہی بات پیش نظر رکھتے ہوئے ریسرچ کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ مٹی میں نوشادر (Ammonium Chloride) اور اعلیٰ درجے کے دافع تعفن اجزا موجود ہیں۔ ٭ ڈاکٹر ہلوک لکھتے ہیں کہ ”ڈھیلے کے استعمال نے سائنسی اور تحقیقی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے ،کیونکہ مٹی کے تمام اجزا جراثیموں کے قاتل ہیں۔جب ڈھیلے کا استعمال ہوگا تو پوشیدہ اعضا پر مٹی لگنے کی وجہ سے ان پر بیرونی طور پر لگے تمام جراثیم مرجائیں گے۔ بلکہ تحقیقات نے یہاں تک ثابت کردیا ہے کہ مٹی کا استعمال شرمگاہ کے کینسر (Cancer of Penis) سے بچاتا ہے۔“ (سنت ِنبوی اور جدید سائنس:1/191) معلوم ہوا کہ محسن انسانیت نے پانی کے علاوہ ڈھیلوں کا حکم یونہی نہیں دیا،بلکہ اس لئے دیا کہ اس میں اُمت ِمسلمہ کے لئے بے شمار فوائد مضمر تھے۔تاہم اہل علم نے پانی اور ڈھیلوں کے سوا ہر اس پاک چیز سے بھی استنجا کی اجازت دی ہے جو طہارت و نظافت میں ان کے قائم مقام ہو اور نجاست کا اثر زائل کردے۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں کہ ”(قضاے حاجت کرنے والے پر) تین ڈھیلوں یا ان کے قائم مقام کسی پاک چیز سے استنجا کرنا لازم ہے۔“ (الدّرر البہية: باب قضاء الحاجة) ٭ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ”شارع نے جس چیز کے استعمال کی اجازت دی ہے، اس کے ساتھ استنجا کا حکم اس لئے ہے کہ نجاست کا اثر مٹ جائے اور اس کی ذات ختم ہوجائے اور شارع نے جس چیز کے ساتھ استنجا کرنے سے منع کیا ہے وہ (اس عمل میں) کفایت کرنے والی نہیں اور جس سے منع نہیں کیا، اگر وہ چیز محترم نہ ہو اور نہ ہی اس کا استعمال مضر ہو تو وہ کفایت کرجائے گی۔“ (السیل الجرار:1/202) |