اس روایت کی سند میں رشدین بن سعد راوی ضعیف ہے۔ (فیض القدیر:2/383) اگرچہ یہ روایت کمزور ہے، لیکن اس کے معنی و مفہوم کے صحیح و قابل عمل ہونے پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔ (الإجماع لابن منذر: ص33، المجموع للنووي:1/110) اگر پانی کسی پاک چیز کے ملنے کی وجہ سے متغیر ہوچکا ہو تو وہ اگرچہ خود تو پاک ہی رہتا ہے لیکن پاک کرنے والے وصف سے عاری ہوجاتا ہے، کیونکہ شریعت نے ہمیں جس پانی سے طہارت حاصل کرنے کا حکم دیا ہے، وہ صرف ماءِ مطلق ہی ہے۔ 2.اگر پانی میسرنہ ہو تو پاک زمین سے طہارت حاصل کی جاسکتی ہے جس میں مٹی، ریت اور پتھر وغیرہ سب اشیا شامل ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلَمْ تَجِدُوْا مَاءً فَتَيَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا﴾ (النساء:43) ”تمہیں پانی میسر نہ ہو تو پاک مٹی سے تیمم کرلو۔“ حدیث ِنبوی ہے کہ ((جُعلت لي الأرض مسجدًا وطهورًا)) (بخاری:335) ”میرے لئے زمین کو مسجد اور پاک کرنے والی بنایا گیا ہے۔“ ایک اور حدیث میں ہے کہ ”پاک مٹی مسلمان کے لئے وضو ہے، چاہے دس سال اسے پانی نہ ملے، جب پانی حاصل ہوجائے تو اپنے جسم کو اس سے صاف کرے۔“ (ابوداود:332) 3. زمین دو طرح سے پاک ہوتی ہے : نمبر1: یہ کہ ا س پر پانی بہا دیا جائے جیسا کہ ایک دیہاتی نے مسجد کے ایک کونے میں پیشاب کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر پانی کا ایک ڈول بہانے کا حکم دیا۔ (بخاری:221) نمبر 2: یہ کہ سورج یا ہوا کی وجہ سے زمین خشک ہوجائے حتیٰ کہ نجاست کا اثر بھی زائل ہوجائے تو وہ پاک ہوجاتی ہے، کیونکہ اس پر وہ وصف ہی باقی نہیں رہا جس و جہ سے اس کے نجس ہونے کا حکم لگایا گیا تھا۔ (4) اگر کنوئیں میں نجاست گر جائے اور اس کے اوصافِ ثلاثہ میں سے کوئی وصف تبدیل |