”زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کارفرمائی کے یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں، کبھی وبا کی شکل میں، کبھی سیلاب کی شکل میں، کبھی زلزلے کی شکل میں، کبھی سردی یا گرمی کی شکل اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی آجاتی ہے جو انسان کے سب کئے دہرے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مرجاتے ہیں، بستیاں تباہ ہوجاتی ہیں، لہلہاتی کھیتیاں غارت ہوجاتی ہیں اور پیداوار گھٹ جاتی ہے۔ تجارتوں میں کساد بازاری آنے لگتی ہے، غرض انسان کے وسائل زندگی میں کبھی کسی طرف سے کمی واقع ہوجاتی ہے اور کبھی کسی طرف سے اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا۔“ رفع الیدین کرنا او رنمازِ جنازہ وعیدین میں اس کی حیثیت؟ ٭ سوال:کیا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفع یدین کرتے تھے اور آخر تک کرتے رہے اور کیا نمازِ عیدین اور نماز جنازہ میں بھی رفع یدین کرنا چاہئے۔ جواب: امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردِ خاص امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور کتاب موطا ٴمیں رفع الیدین کی صحیح حدیث لائے ہیں۔عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے سراُٹھاتے تو رفع الیدین کرکے سمع الله لمن حمده اور ربنا لك الحمد کہتے۔“ اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک رفع الیدین کی حدیث صحیح ثابت ہے، منسوخ نہیں۔ امام محمد بن یحییٰ ذہلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ” رفع الیدین نہ کرنے والے آدمی کی نماز ناقص ہوگی۔“ (صحیح ابن خزیمہ :1/298/589) پھر تکبیر تحریمہ کے وقت وجوب رفع الیدین کے حنفیہ بھی قائل ہیں جس دلیل کے ساتھ تکبیر تحریمہ کے وقت ہمیشہ رفع الیدین کرنے کا ثبوت ملتا ہے، اسی حدیث میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی رفع الیدین کاذکر ہے۔ اگر پہلی رفع الیدین ہمیشہ ہے تو باقی جگہ بھی ہمیشگی ثابت ہوگی۔ رفع یدین کرنے کا جو جواز رکوع سے ماقبل وبعد کے لئے بنایا جاتاہے ، وہی جوازآغاز کی تکبیر تحریمہ پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی سابقہ روایت اس امر کی واضح دلیل ہے۔ مولانا اشفاق الرحمن حنفی رسالہ نور العينين میں فرماتے ہیں:”مواظبت عند الافتتاح کا ثبوت نفس نقل رفع سے نہیں بلکہ نقل رفع، و عدم نقل ترکِ رفع سے ہے۔“ تو یہی |