بندوں کو اللہ کے لئے صیغہ جمع کے استعمال کرنے سے احتراز کرنا چاہئے،تاکہ توحیدی پہلو میں فرق نہ آئے۔چنانچہ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”پوری نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لفظ واحد سے ہیں، جیسا کہ دعا (رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِيْ وَاهْدِنِيْ)اور دعاءِ استفتاح: (اللّهُمَّ اغْسِِلْنِىْ مِنْ خَطَايَايَ) ہے۔“ ( زاد المعاد :1/263،264) جہاں تک بندوں کا آپس میں تخاطب کا تعلق ہے سو اس میں صیغہ جمع کے استعمال کا کوئی حرج نہیں۔ لفظ السلام عليكم اس امر کی واضح دلیل ہے۔ مخاطب چاہے ایک ہو یا زیادہ صیغہ جمع کا سب پراطلاق ہے ، لہٰذا قدیم عربی زبان میں فرد کیلئے واحد کا صیغہ ہی استعمال کرنے کا دعویٰ درست نہیں۔ شرعی دلیل سب سے محکم ہے۔ (مشکوٰة :3/1318، طبع مکتب ِاسلامی) اُنگلیوں پر تسبیحات شمار کرنے کا مسنون طریقہ ٭ سوال: اُنگلیوں پر تسبیحات شمار کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے ؟ جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تسبیحات داہنے ہاتھ کی گرہوں پر کیا کرتے تھے۔سنن ابوداوٴد میں عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا : يعقد التسبيح قال ابن قدامة بيمينه (ابوداوٴد مع شرح عون المعبود: 1/556) ”تسبیح کی گرہ لگاتے۔ راویٴ حدیث ابن قدامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنے داہنے ہاتھ سے گنتی کرتے۔ “ سنن ابوداوٴد کی ایک دوسری روایت میں وأن يعقدن بالأنامل ”تسبیحات پوروں پر گنیں“ کے الفاظ بھی ہیں۔ یسیرہ کی حدیث میں اس کی علت یہ بیان ہوئی ہے کہ انگلیاں عدالت ِالٰہی میں بطورِ گواہ پیش ہوں گی جن کا آغاز چھوٹی اُنگلی سے ہوگا کیونکہ اہل عرب کا طریقہ حساب اسی سے شروع ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہاتہ زمین پر رکھے ہوئے گنتی کریں تو یہ چھوٹی انگلی داہنے ہاتھ کی دا ہنی طرف سے سب سے پہلے پہلی آتی ہے۔ حدیث میں ہے: يعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره وفي شأنه كله (بخاری: باب التيمن) ”رسول اللھ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا، کنگھی، طہارت، تمام اہم اُمور میں دا ہنی طرف کو پسند فرماتے۔“ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قاعدة الشرع المستمرة استحباب البداء باليمين في كل ما كان من باب |