Maktaba Wahhabi

30 - 77
انسانی تعبیر کو مَا أنزل الله قرار نہیں دیا جاسکتا۔ گویا فقہ اور شریعت میں فرق ہے۔ اہل علم کے لئے شریعت الٰہی کی پابندی ضروری ہے جبکہ ان کے لئے فقہی اختلافات میں توسع کی گنجائش ہے۔ تقنین شریعت کے بعض پہلوؤں پر سابق صدرِ پاکستان جناب جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ صاحب سے ان کی بالمشافہہ گفتگو کے علاوہ خط وکتابت بھی ہوتی رہی۔ اسلامی شریعت کے دامن میں وسعتیں ہیں، انسانی جکڑبندیاں نہیں! سابقہ آیات میں وہی سابقہ شریعتوں جیسی تدوین و تقنین کی جکڑبندیوں کی طرف اشارہ ہے لیکن ستم تو یہ ہے کہ آج کے متجددین، اُمت ِمسلمہ کو دوبارہ انہی جکڑبندیوں میں دھکیل دینا چاہتے ہیں جن سے اللہ ربّ العزت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے بندوں کو نجات دلائی تھی … طرفہ یہ کہ اس نظریہ کے حامل لوگ جس شدومد سے تقلید کی مخالفت کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ شوروغوغا آرائی کے ساتھ حکومت یا پارلیمنٹ کی تعبیر و تقنین کو اتھارٹی منوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ فکرونظر کا یہ کتنا بڑا تضاد ہے؟ … کیا یہ بات سوچنے کی نہیں کہ کسی امام سلف کی تقلید اگر ان کی مہارتِ علمی کے باوجود لازمی نہیں تو آج کی پارلیمنٹ بغیر کسی ضمانت ِصحت اور دلیل کے کیونکر اتھارٹی بن سکتی ہے؟ بعض حضرات نے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے ترکی میں ’گرینڈ نیشنل اسمبلی‘ کے فیصلوں کو بھی شرعی اجماع کے مساوی قرار دیا ہے کہ خلافت یا امامت کو کئی افراد پر مشتمل ادارے یا منتخب اسمبلی کے سپرد کیا جاسکتا ہے اور اسی بنا پرپارلیمنٹ کو خلیفہ یا امام کے قائم مقام ٹھہرایا ہے۔ حالانکہ خلیفہ یا امام کو یہ مقام کہاں حاصل ہے کہ ’تعبیر نو‘کے نام پروہ شریعت کی تقنين کرے؟ اسلامی تاریخ میں یہ عجمی تصور سب سے پہلے خلیفہ منصور کے عجمی ادیب عبد اللہ ابن المقفع نے پیش کیا، جس کا ذکر اس کے ایک رسالہ مشمولہ جمهرة رسائل العرب میں بھی ملتا ہے۔ لیکن یہ عجمی فکر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ ائمہ دین رحمۃ اللہ علیہ کی پُرزور مخالفت کی بنا پر نہ صرف پنپ نہ سکا بلکہ ابن المقفع کے ایسے ہی لادین افکار اسے ارتداد تک لے گئے او رانہی کی پاداش میں وہ قتل کردیا گیا۔ کو ئی عظیم امام بھی اپنے فہم شریعت کو عائد کرنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا ! کلیلہ ودمنہ کے مصنف ابن المقفع کے اس تصور کی وجہ بھی وہی تھی، جو آج کل کے
Flag Counter