متجددین فقہی اختلافات کے حوالے سے پیش کررہے ہیں۔ اس نے خلیفہ منصور سے یہ کہا تھا کہ مفتی حضرات کے اختلاف فتاویٰ اور قاضیوں کے متنوع فیصلوں کی بنا پر فکری انتشار بڑھ رہا ہے، لہٰذا بہتر ہوگا کہ خلیفہ ان تمام مختلف آرا کو جمع کرکے ان سے متعلق ایک ایسی حتمی رائے متعین کردے، جس کے سب مفتی اورقاضی حضرات پابند ہوں۔ لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اس فکر کی بھرپور مخالفت کی اور تادم آخر کرتے رہے۔23 ان کا مشہور مقولہ ہے کہ ”ما من أحد إلا وهو مأخوذ من كلامه ومردود عليه إلا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم “ ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر کسی کی بات قبول بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے مگر رسول اللہ کی بات صرف قبول ہی کی جائے گی، ردّ ہرگز نہیں کی جائے گی۔“24 آخری مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید نے اسی تجویز کو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ایک دوسری صورت میں پیش کیا کہ کیوں نہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی موطأ کو کعبہ میں لٹکا کرجملہ دیار وامصار کے مجتہدین کو اس کا پابند بنا دیا جائے؟ لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس صورت کو بھی قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ موطأ ساری شریعت کا مجموعہ نہیں جبکہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے مختلف علاقوں میں پھیل جانے سے احادیث لوگوں کے پاس پہنچ چکی ہیں اور وہ ان پر عمل کررہے ہیں، لہٰذا اصل میں وحی کی اتباع ہی ضروری ہے، خواہ وہ موطا ٴمیں مندرج ہو یا خارج25 موطا ٴ، یوں یہ عجمی فکر ایک لمبے عرصہ تک دوبارہ سر نہ اُٹھا سکا۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ تو اس سے بھی بڑھ کر محتاط تھے۔قاضی کا اجتہاد اگرچہ شریعت کی ایک خاص تعبیر ہوتا ہے اور وہ غلطی کے امکان کے باوجود لاگو بھی ہوتا ہے، تاہم امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے منصب ِقضا کو قبول کرنے سے صرف اس خطرے کی بنا پر انکار کردیا کہ قضا و قانون کے میدان میں مبادا ان پر دباوٴ ڈالا جائے اور حکومت ِوقت انہیں اپنی خواہشات کے سامنے جھکنے پر مجبور کرے۔26 اسی طرح امام مالک رحمۃ اللہ علیہ او رامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے عقیدہ و عمل کے بعض بظاہر معمولی مسائل میں حکومت کی فکری آمریت کو تسلیم نہ کیا۔ اس جرم میں انہوں نے ذلت و نکبت کو تو بخوشی قبول کرلیا، لیکن دین و شریعت پر آنچ نہ آنے دی۔ ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ اقتدارِ حکومت اور شریعت کی اتھارٹی دو علیحدہ امر ہیں۔ حکومت ِوقت چونکہ اپنی ’تعبیر شریعت‘ پر مجبور کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کررہی ہے، لہٰذا خلافت تسلیم ہونے کے باوجود تعبیر شریعت کی یہ آمریت |