Maktaba Wahhabi

91 - 142
کا اُصولی فرق ہے جواس کے عقائد ونظریات کی بنا پر ٹھوس حقیقت رکھتا ہے۔ اسلام کا دنیاوی زندگی کے بارے عقیدہ یہ ہے کہ وہ اس کوچند روزہ زندگی قرار دے کر آخرت کو دائمی مسکن[1] و مستقر قرار دیتا ہے۔ موجودہ زندگی کی قدروقیمت اسلامی عقائد کی روشنی میں اسی قدر ہے کہ یہ ایک امتحان کی تیاری کے لئے ملنے والی مہلت ہے اور دنیا میں انسان کو اعمال کی آزمائش [2]کے لئے بھیجاگیا ہے۔ قرآنِ کریم دنیا میں انسان کی آمد کا مقصد اللہ کی عبادت[3] قرار دیتا ہے۔اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو آخرت کے لئے کھیتی اور اس آرام سے تعبیرکیا ہے جسے ایک مسلمان دورانِ سفر تھوڑا سا سستانے[4] کے لئے اختیار کرتا ہے۔ یوں تو دنیاوی زندگی میں آرام و سکون کے حصول کواسلام حرام قرار نہیں دیتاکیونکہ دنیاوی ضرورتوں اور مسرتوں کو اسلام میں نظر انداز نہیں کیا گیا۔ بلکہ قرآنِ کریم میں مسلمانوں کو سکھائی جانے والی دعا میں دنیا کی خیرو فلاح بھی اللہ[5] سے مانگی گئی ہے۔ لیکن ایک مسلمان اور غیر مسلم کی سوچ کا بنیادی فرق یہ ہے کہ مسلمان کے نزدیک خیروفلاح کا مکمل تصور دنیاسے وابستہ نہیں بلکہ دنیا کے بعد ایک ایسی زندگی آنے والی ہے جہاں ابدالآباد تک انسان کو رہنا ہے۔اس میں کامیابی اور اس کے لئے محنت اس زندگی کا مقصد ہے۔ اسلام میں دنیاوی چین وسکون کو بقدرِ ضرورت ہی اختیار کرنے کا تصور موجود ہے۔ دنیاوی آسائش کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا اور اس کی جستجو میں رہنا صحابہ کرام کی نظر میں ایسا امر تھا جس کاکم از کم نتیجہ آخرت میں دنیاوی لذات کے بقدر انعام سے محرومی ہے چنانچہ تفسیر ابن کثیر(4/160) میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ عادت ذکر کی گئی ہے کہ وہ دنیا میں نعمتوں اور لذتوں سے استفادہ سے اس بنا پر گریز کرتے کہ روزِ قیامت انہیں اس کا نتیجہ ان نعمتوں سے محرومی کی
Flag Counter