وانحراف کے بعد یہ ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے انسان سے اس کا مقصد ِ حیات چھین کر اس مشینی زندگی میں خود اسے بھی ایک مشین کا درجہ دے دیا ہے، بلکہ مشین کے بھی ایک پرزے کا، فقط ایسا پرزہ جو اگر حسب ِتوقع کام نہ کرے تو اسے تبدیل کردیا جائے۔٭ اس المیے کا احساس خود اہل مغرب کو بھی ہے، ایک معروف مغربی مفکر برٹرینڈ رسل (Bertrand Russel) نے تو یہ تک کہہ ڈالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی کہ ”اس کرۂ ارض پر انسانیت کا شاید یہ آخری دور ہے، اور سائنس ہی اسے معدوم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔“ وہ تو یہ تک کہتا ہے کہ ”وہ مشین جس کی اس حد تک توقیر کی جا رہی ہے وہ عصر جدید کا شیطان ہے۔‘‘2 حالانکہ یہی رسل اس سے قبل خود اس زندگی کو بے مقصد اور اندہی طاقتوں کا تماشا تسلیم کرچکے ہیں ۔ایک اور مفکر اور انگلینڈ کا معروف فاضل الڈوس ھکسلے (Aldous Huxley) کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر صاف صاف کہتا ہے: ”اس سائنس نے جو تمام اخلاقی قیود و اقدار سے ہر طرح آزاد ہے، انسان سے اس کی آزادی اور اس دنیا سے امن، دونوں چیزیں چھین لی ہیں ۔“3 یہ آرا اس امر کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ سائنس کا تفوق اپنے اثبات کے بعد اب اپنی بقا کے لئے سرگرداں ہے، اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے خطرہ کسی اور سے نہیں ، انسانی زندگی پر اس کے اپنے بڑھتے ہوئے اثرات سے ہے…!! یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ خود اہل مغرب نے اس پر غور کیا ہے اور نہ صرف غور کیا ہے بلکہ سائنسی ترقی کے شانہ بہ شانہ پروان چڑھنے والے نفسیاتی و فکری انتشار کو سمجھنے کی اور اس کا حل پیش کرنے کی کوشش کی ہے، مگر وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوسکے، ہاں جزوی کامیابی ضرور ہوئی ہے جس کی مثال خود رسل ہے۔اس نے دائمی مسرت کے حصول 4(Conquest of Happiness) کے سلسلے میں بہت سے عنوانات کے تحت بحث کی ہے ٭ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں انسان کی زندگی اور موت کے لیے استعمال کیے جانے والے الفاظ میں ان کے عقائد کی بھرپور جھلک موجود ہے چنانچہ وفات کو Expire سے ، عمر بڑھنے کو انسان کے پرانا ہونے سے تعبیر کرنے سے ان کی انسان کے بارے میں بھی مادی اور مشینی سوچ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ ..مدیر |