کے بعد انہوں نے کیسی کیسی بدعتیں جاری کیں ۔ پھر میں کہوں گا: دوری ہو، دوری ہو ایسے لوگوں کیلئے، جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل ڈالا۔‘‘ (بخاری؛۷۰۵۰) پس وہ عبادت و ریاضت جو سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو۔ صرف ضلالت اور گمراہی ہے۔ وہ اذکار و وظائف جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہوں بے کار اور لاحاصل ہیں ۔ وہ محنت ومشقت جو حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہیں ، وہ جہنم کا ایندھن ہے۔ حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ تین صحابہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و عبادت کے بارے میں پوچھا۔ جب انہوں نے بتایا تو صحابہ نے اپنے لئے اسے کم جانا اور آپس میں کہنے لگے ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔ ایک نے کہا میں ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی روزہ ترک نہیں کروں گا۔دوسرے نے کہا میں شادی نہیں کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں ساری رات نماز پڑھوں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں ۔ سب سے زیادہ پرہیزگار ہوں ، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں ، ترک بھی کرتا ہوں ، رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کئے ہیں (یاد رکھو) جس نے میری سنت سے منہ موڑا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ‘‘ (بخاری:۵۰۶۳) خلاصہ:آخر میں حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویداروں سے یہ بات پھر عرض کرنا ہے کہ اتباعِ سنت اور اطاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند عبادات تک محدود نہیں بلکہ یہ طاعت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ساری کی ساری زندگی پر محیط ہے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق و کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت ہونی چاہئے۔ اسی طرح کاروبار اور باہمی لین دین میں بھی یہ مطلوب ہے۔ ایصال ثواب، زیارت قبور، شادی بیاہ، خوشی و غمی ہر موقع پر اتباع سنت ضروری ہے۔ منکرات کے خلاف جہاد ہو یا حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا معاملہ ہو۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ جاری ہونی چاہئے۔ اے اللہ! ہمیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور عملی محبت نصیب فرما۔ آمین! ٭٭ |