شیخ کی عملی زندگی ۱۴۰۲ھ میں شیخ مسند ِ تدریس پر متمکن ہوئے اور جامعہ الامام محمد بن سعود کے کلیۃ الشریعہ میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد ۱۴۰۳ھ میں جامعہ اُمّ القری کے کلیۃ الشریعہ میں منصب ِتدریس پر متمکن ہوئے۔ اس کے بعد ۱۴۰۵ھ میں ’مرکز الدراسات العلیا الاسلامیہ المسائیہ‘ میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر ہوئے اور پھر اسی سال ہی آپ کو جامعہ اُمّ القری کے کلیۃ الشریعۃ والدراسات الاسلامیۃ کا وکیل بنا دیا گیا اور بعد میں آپ اسی کلیہ کے پرنسپل مقرر کر دیے گئے ۔۱۴۱۳ھ میں شریعہ فیکلٹی کے ڈین نامزد ہوئے، اس کے علاوہ مسجد ِحرام میں امامت وخطابت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ شیخ عمر بن محمد السبیل نے باب ِفہد کے قریب ’رواقِ عثمانی‘ میں ایک طویل عرصہ گزارا ۔آپ نے وہاں مسجد ِحرام میں امامت وخطابت کے ساتھ ساتھ اپنا ایک حلقہ درس بھی قائم کیا۔اس کے علاوہ آپ مسجد حرام کے علمی حلقوں میں بھی لیکچرز دیتے رہے۔ آپ عموماً ہفتہ اور اتوار کو عصر کی نماز کے بعد اپنا حلقہ درس قائم کرتے اور ا مام محمد بن عبدالوہاب کی کتاب قرۃ عیون الموحدین اورامام راغب کی کتاب ’فقہ الہدایہ‘ کی تشریح میں لیکچر ار شاد فرمایا کرتے تھے۔ اور ہزاروں تشنگانِ علم آپ کے سمندر ِعلم سے سیراب ہوتے رہے۔ اسی طرح شیخ نے اپنی زندگی کا چالیس سالہ عرصہ مسجد ِحرام کے جوار میں درس وتدریس اور امامت وخطابت کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے گزارا۔ شیخ کے اَساتذہ آپ نے جامعہ الامام محمد بن سعود سے علومِ شریعہ میں بی اے، پھر ایم اے کیا ۔ اور فقہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔اور اس دوران بہت سے اساتذہ سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا ۔اس کے بعد جب آپ جامعہ اُمّ القریٰ میں استاد اور مسجد ِحرام کی امامت و خطیب کے منصب ِجلیلہ پر فائز ہوئے تو بھی آپ نے تحصیل علم کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور برابر حصولِ علم میں مشغول رہے ۔اس دوران آپ نے شیخ حافظ محمد اکبر ،جو مسجد ِحرام میں مدرس تھے ، سے قرآن حفظ کیا اور ان سے قراء ۃ ِحفص کی ’اجازہ‘ حاصل کی۔ شیخ عبد اللہ بن حمید اور سماحۃ الشیخ عبد اللہ بن باز سے بھی کسب ِفیض کرتے رہے۔ اس کے علاوہ شیخ عبداللہ بن عدنان سے علم فقہ میں دسترس حاصل کی،جو ’کبار علماء کونسل‘ کے رکن اور علم فقہ میں مہارتِ تامہ کے حامل تھے ۔ |