Maktaba Wahhabi

35 - 71
اس حوالے سے ان کی مشابہت سے منع فرمایا: لا تشبهوا باليهود [1]اور ایک حدیث میں اپنے گھر بار کو صاف ستھرا رکھنے کی تلقین کی، ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہودی صاف ستھرا نہیں رکھتے۔طهروا أفنيتکم فإن اليهود لا تطهر أفنيتها[2] ”تم اپنے گھر بار کو صاف ستھرارکھا کرو۔ یہود اپنے گھروں کوصاف ستھرا نہیں رکھتے۔“ آپ نے گھر بار کے حوالے سے یہودیوں کے گندے کلچر کے مقابلے میں انتہائی صاف ستھرا کلچر پیش کیا بلکہ اسلامی کلچر میں الطهور شطر الايمان[3]فرما کر ہر طرح سے صفائی کو نصف ایمان ٹھہرایاگیا۔ دورِ حاضر کے مسلم مفکرعالیجاہ عزت بیگوویچ کے الفاظ میں ”یہ اسلام کا اعزاز ہے کہ اس نے جسمانی صفائی کو بھی ایمان وعقیدے کا جزو بنایا۔ دیگر تمام مذاہب میں جسم اور اس کی نظافت ’خارج از بحث‘ ہے۔ مثال کے طور پر مسیحیت کے پھلنے پھولنے کے ساتھ رومی تہذیب کے بنائے ہوئے غسل خانے غائب ہونے لگے۔ کلیسا نے غسل خانے، گرجا گھروں اور معبدخانوں میں تبدیل کردیئے۔ اس کے برعکس اسلام نے مساجد کے ساتھ غسل خانے اور طہارت خانے قائم کروائے۔ دنیا میں کوئی ایسی مسجد نہیں ہے جس میں فوارہ (یا موجودہ دور میں وضو خانہ) نہ ہو۔ یہ سب اتفاقی طور پرنہیں ہوا۔‘‘[4] دورِ جاہلیت میں عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ بچے کی پیدائش پرعقیقہ کے جانور کے خون میں روئی رنگتے اور پھر بچے کی حجامت کے بعد یہ روئی سر پر رکھتے۔ آپ نے ان کی اس جاہلانہ رسم کی مخالفت کی اور ا س کی جگہ اس کے سر پر خوشبو لگانے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اجعلوا مکان الدم خلوقا [5]”خون کے مقامات پر خوشبو لگاؤ“ کیونکہ آپ ایسا کلچر پروان چڑھا رہے تھے جو ہر طرف خوشبوئیں بکھیرنے والا تھا۔ اہل کتاب کی مخالفت کرتے ہوئے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کم کرنے کی تلقین کی۔ تاکہ اسلامی تہذیب کی شناخت ہو اور مسلمان ہر جگہ اپنی ثقافت کا علمبردار ہو۔ آپ نے فرمایا: ”وفّروا عثانينکم وقصروا سبالکم وخالفوا أهل الکتاب[6] ”اپنی داڑھیوں کو بڑھاؤ، مونچھوں کو کاٹو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔“ سر پرغیر مہذبانہ اور مضحکہ خیز انداز میں کچھ بال کٹوانے اور کچھ چھوڑنے والی طرزِحجامت کو ترک کرنے کا حکم دیا : نہی عن القزع قال وما القزع؟ قال: أن يحلق من رأس الصبی مکان ويترک مکان[7] ”رسول اللہ نے ’قزع‘ سے منع کیا، صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! ’قزع‘ کیا ہے؟آپ نے فرمایا: بچے کے سر کے کچھ بال کٹوا لئے جائیں اور سر کا کچھ حصہ ایسے ہی چھوڑ دیا جائے۔“
Flag Counter