Maktaba Wahhabi

77 - 80
جو فاضل گریجویٹ ہونے کے بعد کسی بھی ہسپتال میں جاکر میڈیکل پریکٹیشز کے طور پر کام کر سکتے تھے۔ ہر شخص کو انجکشن لگانا آتا تھا مرغیوں کو بھی اور انسانوں کو بھی ۔ ہرشخص بنیادی طبی کورس کر چکا ہو تا ہے۔ اے زیڈ ایم شمس العالم صاحب جو العرفہ اسلامی بنک کے چیئرمین ہیں انہوں نے مجھے بتایا کہ دوسال پہلے انہوں نے قومی مدرسوں سے درس نظامی کے فارغ گریجوایٹس کو اپنے بنک میں آفیسر کے طور پر ملازمت میں لیا ۔ اس وقت ان کے بنک میں 60افسر ہیں جن کے پاس کوئی انگریزی کی تعلیم نہیں تھی انہوں نے کسی کالج یا یونیورسٹی سے بی کام یاایم بی اے نہیں کیا تھا صرف درس نظامی کے فارغ التحصیل تھے ۔انھوں نے ان 60طالب علموں کو 6ماہ کی ٹریننگ دی۔ میرے اس موجودہ دورے کے دوران انہوں نے مجھے ان سے ملوایا ۔ان کے مینیجنگ ڈائریکٹر کا یہ کہنا تھا کہ ان کی پیشہ وارانہ کارکردگی جدید پڑھے لکھوں سے بدر جہا بہتر تھی ۔وہاں ایک راستہ یہ بھی کھل رہاہے اور اس پر یہاں ہمیں سوچنا چاہئے۔ عالیہ مدراس کی روایت کو دیکھنا چاہئے عالیہ مدرسے میں میٹرک ،ایف اے، بی اے،ایم اے ،ان چار سطحوں تک تعلیم دی جاتی ہے۔ اسے داخلی عالم فاضل اور کامل کہتے ہیں بنگلہ دیش کی حکومت نے داخلی کو میٹرک کے اور عالم کو انٹرمیڈیٹ کے برابر تسلیم کر لیا ہے نتیجتاً عالیہ مدرسے کے 80فیصد گریجوایٹس قومی تعلیم کے دھارے میں شامل ہو جا تے ہیں ۔یہ ڈھاکہ یونیورسٹی ،چٹا گانگ یونیورسٹی اور راج شاہی یونورسٹی میں داخلہ لے لیتے ہیں اور پھر اپنے اپنے مضامین میں ایم اے ،بی اے کرلیتے ہیں ۔اس وقت بنگلہ دیش کی سول سروس ،آرمی پرائیویٹ سیکٹراور بنک کاری میں بہت بڑی تعداد ایسی ہے۔ جو عالیہ مدرسوں کے گریجوایٹس ہیں ۔وہ درس نظامی کے مکمل طور پر ماہر ہیں ۔ مزید یہ کہ انہوں نے ایف اے بی اے سطح کے جدید مضامین بھی پڑھے ہوئے ہیں اس وقت ڈھاکہ راج شاہی چٹا گانگ جہانگیر ان ساری یونیورسٹیوں میں فارسی اردو عربی اسلامی تاریخ اسلامیات ان تمام شعبوں کے 100فیصد اساتذہ عالیہ مدرسوں کے گریجوایٹس ہیں پاکستان کی یونیورسٹیوں میں اس کا بہت کم امکان پا یا جا تا ہے۔عالیہ مدرسوں سے بہت سے نامی گرامی لوگ نکلے ہیں اس وقت بنگلہ دیش کے جو چوٹی کے اہل علم دانش ہیں ان کی خاصی بڑی تعداد عالیہ مدارس سے نکلی ہے۔ 73/1972ءمیں جب شیخ مجیب الرحمٰن یہاں سے واپس گئے تو انہوں نے مدرسوں کے اوپر ایک وار کرنے کی کوشش کی۔ قدرت خدا کمیشن بٹھایا گیا۔اس کمیشن کی بنیادی رپورٹ یہی تھی کہ مدرسوں کے نظام کی کوئی ضرورت نہیں ہے ان کو ختم کردیا جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کا خیال تھا کہ یہ مدارس دلالوں اور رضاکاروں کے مراکزتھےاور پاکستان کی حمایت کرنے والوں کی بڑی تعداد دراصل انہیں مدرسوں کے طلبہ کی تھی۔
Flag Counter