Maktaba Wahhabi

73 - 80
"اور مائیں اپنے بچوں کو کامل دوسال تک دودھ پلائیں اگر ان کا ارادہ مدت رضاعت پوری کرنا ہے"(البقرۃ233) اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہے۔ 2۔دوسرے مقام پر ارشاد ہے اور یہ آیت بھی بالکل واضح ہے۔ ﴿ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ﴾(لقمان :14) "اور دوسال اس (بچہ) کو دودھ چھوٹنے میں لگے" 3۔ایک اور مقام پر ارشاد ہے۔ ﴿ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْراً﴾ (الاحقاف:15) "اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کا دودھ چھوٹنا تیس مہینوں میں ہوا" مولوی شبیر احمد عثمانی صاحب اس آیت کے تحت لکھتے ہیں ۔ "شاید بطور عادت اکثر یہ کے فرمایا ہو۔حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ"لڑکا اگر قوی ہو تو اکیس مہینہ میں دودھ چھوڑتا ہے اور نو مہینے ہیں حمل کے" یایوں کہو کہ کم ازکم مدت حمل چھ مہینے ہیں اور دو برس میں عموماً بچوں کا دودھ چھڑادیا جا تا ہے اس طرح کل مدت تیس مہینے ہوئے مدت رضاع کا اس سے زائد ہو نا قلیل و نادر ہے" (تفسیر عثمانی : ص669طبع مدینہ منورہ ) 4۔جناب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا : "لا يحرم من الرضاعة إلا ما كان دون الحولين" "رضاعت وہ ہے جو دو برس کے اندر ہو"(سنن دارقطنی بحوالہ تفسیر ابن کثیر : ج 1ص283) 5۔اور دوسری روایت میں ہے۔ "وما كان بعد الحولين فليس بشيء " (ابن کثیر ایضاً) "اور جو دو سال کے بعد ہے وہ کچھ نہیں "یعنی دو برس کے بعد رضاعت نہیں ہے۔ 6۔حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ "اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ مائیں اپنی اولاد کو مکمل مدت دودھ پلائیں اور یہ مدت دوسال ہے اور دوسال کے بعد رضاعت کا کوئی اعتبار نہیں اسی لیے ارشاد فرمایا کہ یہ اس کے لیے ہے کہ جس کا ارادہ مدت رضاعت پوری کرنا ہے اور اکثر آئمہ کرام اس طرف گئے ہیں کہ رضاعت دوبرس کے اندراندرہے اور جب بچے کی عمر دوسال سے زائد ہو جا ئے تو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی" 7۔امام ترمذی فرماتے ہیں : "عنوان رضاعت وہی معتبر ہے جو چھوٹی عمر میں دوسال کے اندر اندرہو۔۔۔اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "رضاعت وہی معتبر ہے کہ جس میں آنتیں دودھ سے بھر جانے کے بعد ایک دوسرے سے جدا ہو جا ئیں اور یہ دودھ پلانا دودھ پلانے کی مدت (دوسال) کے اندراندرہو۔
Flag Counter