Maktaba Wahhabi

70 - 80
مفتی صاحب کی دسویں دلیل: مفتی صاحب لکھتے ہیں ۔ "بخاری شریف میں ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا :"الرَّضاعة تحرِّم ما تحرِّم الولادة" "دودھ پلانا ان رشتوں کو حرام کردیتا ہے جنہیں پیدائش حرام کرتی ہے" (ج2ص464) یہاں بھی آپ نے تھوڑے اور زیادہ کی کوئی تفریق نہیں فرمائی۔ الحاصل قلیل دودھ خواہ ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو، اس سے بھی رضاعت ثابت ہو جا تی ہے"(ص4) جائزہ : اس روایت پر مفصل گفتگو گزر چکی ہے مفتی صاحب نے خانہ پری اور دس دلیلیں پوری کرنے کے لیے اس روایت کو ذکر کر دیا ہے ورنہ اس روایت میں ان کے دعوےکا دور دور تک کہیں سراغ نہیں ملتا ۔موصوف کا دعویٰ خاص ہے اور دلائل سارے کے سارے انہوں نے عام پیش کئے ہیں اور جن روایات میں وضاحت ہے وہ من گھڑت جھوٹی اور ضعیف روایات ہیں ۔موصوف کے دعویٰ کے مطابق یہ ان کے پیش کردہ کثیر صحیح احادیث شریفہ اور قوی دلائل ہیں جن کی حقیقت آپ نے ملاحظہ فرمالی۔ حرمت رضاعت کے چند اصول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور اس وقت ایک شخص میرے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔آپ کو اس شخص کا آنا ناگوار گزرا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے مبارک پر غصے کے آثار دیکھے ۔ میں نے عرض کیا ۔اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ میرا دودھ شریک بھائی ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر ما یا :"انظرن من إخوانكن، فإنما الرضاعة من المجاعة" (صحیح بخاری و مسلم) "غورکروکہ تمہارے دودھ شریک بھائی کون ہوسکتے ہیں ؟رضاعت وہی معتبر ہے کہ جو بھوک کے وقت ہو۔ یعنی جس رضاعت سے بچے کی بھوک دور ہو جا ئے ،وہ رضاعت حرمت ہے" یہ روایت مفتی صاحب کے قلیل دودھ والے مسلک کی حقیقت بتانے کے لیے نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ ایک گھونٹ سے بھوک دور نہیں ہو سکتی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں ۔ "أي الرضاعة الّتي تثبت بها الحرمة، وتحلّ بها الخلوة هي حيث يكون الرضيع طفلاً لسدّ اللبن جوعته، لأنّ معدته ضعيفة يكفيها اللبن وينبت بذلك لحمه فيصير كجزء من المرضعة فيشترك في الحرمة مع أولادها، فكأنّه قال:
Flag Counter