Maktaba Wahhabi

69 - 80
فرمایا بلکہ سکوت فر مایا جس سے معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تھوڑا دودھ بھی محرم یعنی سبب حرمت ہے۔(بخاری: ج2ص764) جائزہ:مفتی صاحب کے نزدیک امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی حجت اور دلیل کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اہلحدیث حضرات کو دوش دیتے ہوئے موصوف نے لکھا ہے۔ "نہ معلوم یہاں پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے کیا خطا سر زد ہوئی کہ اس کو پس پشت ڈال دیا اور اپنے مقرر کردہ اصول کہ اول کتاب اللہ بعد بخاری رحمۃ اللہ علیہ کیوں ترک کردیا"(ص4) مفتی صاحب کو معلوم ہو نا چاہئے کہ ہمارے نزدیک حجت و دلیل دو ہی چیزیں ہیں ۔ (1)قرآن کریم اور (2)حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی امام کے قول کو چاہیے وہ کتنا بڑا امام کیوں نہ ہو ہم نے کبھی بھی بطور حجت و دلیل کے نہیں مانا ہے اور نہ کبھی اسے پیش کیا ہے البتہ قرآن و حدیث کی تائید میں ہم اماموں کےا قوال پیش کردیتے ہیں اور صحیح بخاری کو ہم اصح الکتاب اللہ اس لیے مانتے ہیں کہ اس میں صحیح و مرفوع احادیث پر ہی ہم عمل پیرا ہونے کی کو شش کرتے ہیں ہم کسی امام کے قول کے مقابلے میں صحیح حدیث کو ترک نہیں کرتے بلکہ صحیح حدیث آجائے تو امام کے قول کو رد کردیتے ہیں ۔مفتی صاحب کو چاہئے کہ پہلے وہ ہمارے اصول کو سمجھیں کہ ہم نے کبھی بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کو دین نہیں سمجھا۔ کسی امام کی رائے کا نام دین نہیں ہے بلکہ دین تو قرآن و حدیث کا نام ہے اور جہاں تک صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اصح الکتاب بعد کتاب اللہ ہونے کا تعلق ہے تو اس اصولی بات کو علماء حنفیہ بھی تسلیم کرتے ہیں ۔مثلاً مولوی سلیم اللہ خان صاحب شیخ الحدیث و مہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی صحیح بخاری کی شرح کشف الباری میں عنوان قائم کرتے ہیں ۔ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ (ص185جلد اول ) مفتی صاحب کی نویں دلیل: مفتی صاحب لکھتے ہیں ۔ "بخاری شریف میں حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جس میں ایک عورت کے یہ کہنے سے کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا دعها عنك"اپنے سے اپنی بیوی کو جدا کردو"یہاں بھی آپ نے یہ سوال نہیں کیا کہ دودھ کتنی مرتبہ پلایا۔(ج2ص760) جائزہ:اس روایت میں بھی دودھ پینے کی تحدید نہیں ہے بلکہ ظاہر روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ اس خاتون نے ان کو پانچ مرتبہ سے زیادہ بار ہی دودھ پلا یا تھا عرب معاشرہ میں یہ قاعدہ تھا کہ دائیاں ہی بچوں کو مدت رضاعت میں دودھ پلایا کرتی تھیں اور دودھ کی مدت عموماً دو سال تک ہوتی تھی۔یہ نہیں ہو تا تھا کہ دائی ایک قطرہ دودھ پلا کر بچے سے جدا ہو جائے ۔حقیقت میں دیکھا جا ئے تو یہ روایت بھی خمس رضعات کی زبردست دلیل ہے۔
Flag Counter