Maktaba Wahhabi

59 - 80
مفتی صاحب کے دلائل کا نکتہ بہ نکتہ جائزہ مفتی صاحب کی پہلی دلیل : مفتی صاحب لکھتے ہیں :"وَأُمَّهَاتُكُمُ اللاَّتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ" (النساء :23) "اور تم پر تمہاری وہ مائیں حرام ہیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلا یا اورتمھاری رضاعی بہنیں " اس آیت شریفہ میں مطلق رضاعت کو سبب حرمت قراردیا گیا ہے قلیل و کثیر کی کوئی تفریق نہیں کی گئی ہے(ص2) جائزہ:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک عام قانون بیان کیا ہے اور وہ یہ کہ جن ماؤں نے تمہیں دودھ پلایا ہے اور جو تمہاری رضاعی بہنیں ہیں وہ بھی تم پر حرام ہیں ۔اس آیت میں نہ تو دودھ کی مقدار کا کو ئی ذکر ہے اور نہ اس کی کوئی تحدید بیان کی گئی ہے۔ اسی طرح آیت میں یہ بھی نہیں بیان کیا گیا کہ کس عمر تک دودھ پینے سے رضاعت ثابت ہوگی۔یعنی مدت رضاعت کا بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔یہ آیت چونکہ عام ہے اس لیے اس کی وضاحت کے لیے قرآن کریم کی دوسری آیات یا پھر احادیث کی طرف رجوع کیا جائے گا مدت رضاعت کا ذکر تو قرآن کریم میں دوسرے مقام پر موجود ہے البتہ یہ مسئلہ کہ کتنی مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوگی؟اس سلسلہ میں احادیث کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ (1)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پہلے قرآن کریم میں دس مرتبہ دودھ پینے سے حرمت رضاعت کا حکم نازل ہوا تھا پھر یہ حکم منسوخ ہو گیا اور پانچ بار دودھ پینے سے حرمت رضاعت کا حکم نازل ہو گیا اور جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہ حکم قرآن کریم میں تلاوت کیا جارہا تھا۔ (صحیح مسلم: 469/1موطا امام مالک) یہ حدیث اس مسئلہ میں نص کی حیثیت رکھتی ہے اور اس حدیث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ حکم قرآن کریم میں تلاوت کیا جا رہا ہے البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل اس کی تلاوت منسوخ ہوگئی البتہ اس کا حکم باقی رہ گیا۔ جیسا کہ رجم کے متعلق بھی آیت رجم پہلے قرآن میں نازل ہوئی تھی لیکن پھر اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی البتہ اس کا حکم باقی رہ گیا۔گویا قرآن کریم کی اس آیت کی وضاحت قرآن کریم کی دوسری آیت کر رہی ہے کہ جس کی تلاوت تو منسوخ ہو چکی ہے البتہ اس کا حکم باقی ہے۔ جیسا کہ گزشتہ اوراق میں تفصیل سے بیان ہوا۔ مفتی صاحب کا یہ کہنا کہ"اس آیت میں مطلق رضاعت ہی کو سبب حرمت قراردیا گیا ہے "تو اس کی کو ئی دلیل انہوں نے ذکر نہیں کی بلکہ یہ صرف ان کی رائے ہے اور احادیث صحیحہ کے ہوتے ہوئے ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
Flag Counter