Maktaba Wahhabi

53 - 80
جارہی تھیں اور یقراء یا کے پیش کے ساتھ ہے(یعنی یقراء صیغہ مجہول ہے) اوران آیات کو کون پڑھتے تھے،اس کے معنی یہ ہیں کہ خمس رضعات کا نسخ بہت ہی دیر میں ہوا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و فات پاگئے اور بعض لوگ خمس رضعات کی آیات پڑھتے رہے اور انہیں قرآن متلو سمجھتے رہے۔اس لیے کہ انہیں ان کی تلاوت کے نسخ کے متعلق ز مانے کے قریب ہونے کی بنا پر حکم نہیں پہنچا تھا۔ پھر جب انہیں ان کا نسخ معلوم ہوا تو انہوں نے ان سے رجوع کرلیا۔(یعنی ان کو تلاوت کرناچھوڑ دیا) اور اس پر اجماع ہوگیا کہ ان کی تلاوت نہیں کی جائے گی۔ اور نسخ کی تین قسمیں ہیں : پہلا وہ کہ جس کی تلاوت اور حکم دونوں منسوخ ہوجائیں جیسا کہ عشر رضعات(دس بار دودھ پینے کا حکم) اور دوسرا وہ کہ جس کی صرف تلاوت منسوخ ہوجائے لیکن اس کا حکم باقی ہو جیسا کہ خمس رضعات(پانچ بار دودھ پلانے کا حکم) اور(دوسری آیت) جب شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت زنا کریں تو ان دونوں کو سنگسار کردو اور تیسری قسم وہ ہے کہ جس کا حکم منسوخ ہوگیا لیکن اس کی تلاوت باقی رہ گئی اور اس طرح کی آیات بہت سی ہیں جن میں سے یہ آیت بھی ہے:"تم میں سے جو لوگ وفات پاجائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کے لیے وصیت کرجائیں "الایۃ واللہ اعلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ آگے لکھتے ہیں : منها ان بعضهم ادعي انها منسوخة وهذا باطل لايثبت بمجرد الدعوي و منها أن بعضهم زعم أنه موقوف على عائشة ، وهذا خطأ فاحش بل قد ذكره مسلم وغيره من طرق صحاح مرفوعا من رواية عائشة ومن رواية أم الفضل ، ومنها أن بعضهم زعم أنه مضطرب وهذا غلط ظاهر وجسارة على رد السنن بمجرد الهوى ، وتوهين صحيحها لنصرة المذاهب . وقد جاء في اشتراط العدد أحاديث كثيرة مشهورة والصواب اشتراطه ، قال القاضي [ ص: 26 ] عياض : وقد شذ بعض الناس فقال : لا يثبت الرضاع إلا بعشر رضعات وهذا باطل مردود ، واللّٰه أعلم . (شرح مسلم) "اور بعض لوگوں نے اس حدیث کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور یہ قول باطل ہے کیونکہ مجرد دعویٰ سے تو کوئی بات ثابت نہیں ہوتی،اور بعض نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر موقوف ہے اور یہ قول صریح غلطی ہے بلکہ امام مسلم وغیرہ نے اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صحیح سند کے ساتھ مرفوعاً روایت کیا ہے اور اسی طرح ام الفضل سے بھی۔اور بعض نے کہا ہے کہ یہ حدیث مضطرب ہے اور یہ قول کھلی غلطی اور نفسانی خواہشات کی بناء پر سنتوں کو رد کرنے کی جسارت ہے اور اپنے مذاہب کی نصرت کی خاطر احادیث صحیحہ کی توہین ہے اور(رضاعت کی) تعداد کے بارےمیں احادیث کثیرہ موجود ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ(رضاعت کی ) تعداد(خمس رضعات) ثابت ہے ،قاضی عیاض کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کو یہ شاذ قول بھی ہے کہ دس رضعات کے بغیر رضاعت ثابت نہیں ہوتی لیکن دس رضعات والا قول باطل ومردود ہے"و اللّٰه اعلم
Flag Counter