Maktaba Wahhabi

50 - 80
جائز نہیں ۔"حافظ سیوطی الاتقان (2۔24) میں لکھتے ہیں : قال ابن الحصار : إنما يرجع في النسخ إلى نقل صريح عن رسول اللّٰه - صلى اللّٰه عليه وسلم - ، أو عن صحابي يقول : آية كذا نسخت كذاقال : وقد يحكم به عند وجود التعارض المقطوع به من علم التاريخ ، ليعرف المتقدم والمتأخرقال : ولا يعتمد في النسخ قول عوام المفسرين ، بل ولا اجتهاد المجتهدين من غير نقل صحيح ، ولا معارضة بينة ; لأن النسخ يتضمن رفع حكم وإثبات حكم تقرر في عهده صلى اللّٰه عليه وسلم والمعتمد فيه النقل والتاريخ دون الرأي والاجتهاد . "ابن حصار کہتے ہیں کہ نسخ کے باب میں صرف نقل صریح کی طرف رجوع کیا جاتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے منقول ہے کہ فلاں آیت نے فلاں حکم منسوخ کردیا،اور نسخ کا حکم اس وقت بھی کیا جاسکتا ہے جب کہ دو نصوں میں قطعی تعارض ہو،اور ساتھ ہی تاریخ بھی معلوم ہوتا کہ مقدم اور متاخر کو معلوم کیاجاسکے اور نسخ کے باب میں عام مفسرین کے قول پر اعتماد نہیں کیا جائے گا۔بلکہ بغیر نقل صحیح اور واضح تعارض کے بغیر مجتہدین کے اجتہاد پر بھی اس باب میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ نسخ کا مطلب ایک ایسے حکم کے اُٹھانا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ثابت تھا اور اس کی جگہ پر دوسرے حکم کو رکھنا ہے۔اس بارے میں لائق اعتماد نقل صریح یا قطعی تاریخ ہی ہوسکتی ہے نہ کہ محض رائے اور اجتہاد" آگے لکھتے ہیں : "سوم:نسخ کی یہ صورت کہ کسی آیت کے الفاظ منسوخ ہوجائیں اور حکم باقی رہے ۔اگر چہ بعض معتزلہ نے اس کا انکار کیا ہے۔لیکن باتفاق اہل حق یہ صحیح ہے اور اس میں کوئی عقلی یا شرعی مانع نہیں ،کیونکہ بہت سے احکام ایسے ہیں جن کو نظم قرآن میں شامل نہیں کیاگیا،لیکن بذریعہ وحی آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریح فرمائی،پس جس طرح یہ جائز ہے کہ ایک حکم ابتداء وحی متلو کی حیثیت رکھتا ہو لیکن بعد میں اس کی تلاوت اُٹھالی جائے اور حکم باقی رہے۔ان دونوں ہاتھوں میں کوئی بیماری فرق نہیں ۔اس لیے جس طرح پہلی صورت جائزہے اور اس پر کوئی عقلی استحالہ لازم نہیں آتا۔اسی طرح یہ بھی جائز ہے"(ماہنامہ بینات،کراچی:جلد39 ،شمارہ 1۔2 جون جولائی 1981ء) مفتی صاحب نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ اگر اس روایت کو مان لیا جائے توشیعہ اور روافض کا قرآن کریم کے بارے میں یہ دعویٰ صحیح ہوجائےگا کہ قرآن کریم میں تحریف ہوچکی ہے اگر مفتی صاحب کے اس خدشہ کو صحیح مان لیا جائے تو پھر وہ اس طرح کی دوسری روایات کے متعلق کیا طرز عمل اختیار کریں گے؟ اس سلسلہ کی ایک مثال پیش خدمت ہے،چنانچہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خاص موقع پر ارشاد فرمایا:۔ "إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ ، فَكَانَ مِمَّا أَنْزَلَ اللَّهُ آيَةُ الرَّجْمِ ، فَقَرَأْنَاهَا ، وَعَقَلْنَاهَا ، وَوَعَيْنَاهَا ، رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ
Flag Counter