Maktaba Wahhabi

49 - 80
حدیث سے یہ بھی واضح ہواکہ شروع میں دس رضعات سے حرمت ثابت ہوا کرتی تھی پھر یہ آیت اور اس کا حکم دونوں منسوخ ہوگئے اور پھر قرآن کریم میں پانچ رضعات کاحکم نازل ہوا اور اس آیت کی تلاوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک ہوتی رہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے اس آیت کی تلاوت منسوخ ہوگئی،البتہ اس کا حکم باقی رہ گیا۔اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ حکم قرآن کریم کی آیت میں موجودتھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اس کی تلاوت کرتے رہے۔مفتی صاحب اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں : "دامانوی صاحب نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صدیقہ کی روایت نقل کی حالانکہ یہ حکم باتفاق جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور جمہور علماء امت منسوخ ہے۔اوراس نسخ کی دلیل یہ ہے کہ قرآن پاک میں کہیں بھی پانچ مرتبہ دودھ پلانے کا ذکر نہیں ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ الفاظ بھی بعد میں منسوخ ہوگئے تھے۔اور ممکن ہے کہ ان الفاظ کا منسوخ ہونا بالکل آخر زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوا ہو۔اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پتہ نہ چلا ہو۔ورنہ اگر یہ الفاظ منسوخ نہ ہوتے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ان الفاظ کو مصحف عثمانی میں شامل کرانے کی کوشش نہ کرتیں ۔ورنہ رافضیوں شیعوں کا یہ دعویٰ صحیح ہوگا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے قرآن پاک میں تحریف کردی۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلم شریف کی شرح میں اس حدیث کایہی جواب دیاہے۔ (ج ص468) اور منسوخ شدہ الفاظ سے استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے۔(ص 4۔5) مفتی صاحب نے اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔لیکن یہ ان کا دعویٰ ہے کہ جس کی کوئی دلیل انہوں نے ذکر نہیں کی۔مفتی صاحب نے لکھا ہے: "ممکن ہے کہ ان الفاظ کا منسوخ ہونا بالکل آخر زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوا ہو" یہ مفتی صاحب کا نرااحتمال ہے۔اور صحیح حدیث کے ہوتے ہوئے ان کے احتمال کو ماننا مشکل ہے۔اصول فقہ کامشہور قاعدہ ہے کہ:"اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال " جب احتمال آگیا تو استدلال باطل ہوگیا"جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فتویٰ اور عمل بھی اسی حدیث کے مطابق تھا۔حافظ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے:" وهو مذهبها ، وبه كانت تفتي ، وتعمل" یہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا موقف تھا اور اسی کے مطابق آ پ فتویٰ دیاکرتیں )(فتح المالک بتوبویب التمھید ابن عبدالبر علی موطا الامام مالک:7/411) منسوخ کا حکم لگانے میں علماء کی احتیاط: بقول مفتی صاحب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس حدیث کے منسوخ ہونے کا پتہ تو پوری زندگی نہ چل سکا۔معلوم نہیں مفتی صاحب کو کیسے معلوم ہوگیا کہ یہ حدیث منسوخ ہوچکی ہے۔مفتی محمد یوسف لدھیانوی منکرین حدیث کا رد کرتے ہوئے اور آیت رجم کا دفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں : "اول یہ کہ کسی حکم شرعی کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو،نسخ کا دعویٰ کرنا بہت ہی سنگین با ہے۔اور اس کے لیے نقل صحیح کی ضرورت ہے،محض قیاس وگمان سے نسخ کادعویٰ کرنا
Flag Counter