Maktaba Wahhabi

41 - 80
سے ان کی مراد یہ ہوکہ کٹانے میں مبالغہ نہ کرے۔اس سے مراد مٹھی کے اندر کٹانا ہو یعنی مٹھی کے اندر کٹانا ہی مبالغہ ہے جس سے وہ منع فرمارہے ہیں ۔اس صورت میں ان کا قول احادیث مذکورہ بالا کے موافق ہوجائے گا جن میں مٹھی سے زائد کٹانے کی رخصت ہے۔اور ان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عمل کے بھی موافق ہوجائے گا جو مٹھی سے زائد کٹانے کے عامل ہیں اور یہ قول ان(حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ ) کا بھاری داڑھی پر محمول ہوگا اور دوسرا قول ہلکی داڑھی پر یعنی جب ہلکی داڑھی ہوتو بالکل نہ کٹائے اور اعفواللحی پر عمل کرے اور جب بھاری ہوتو قبضہ سے زائد کٹانے کی اجازت ہے۔اس طرح سے ان کے دونوں قولوں میں موافقت ہوجائے گی اور تعارض ا ٹھ جائے گا۔والحمدللّٰه علی ذلک خلاصہ اس ساری بحث کا یہ ہے کہ پسندیدہ تو نہ کٹانا ہے خواہ داڑھی ہلکی ہو یا بھاری۔جیسےامام نووی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں اور بھاری د اڑھی کوئی مٹھی سے زائد کٹالے تو اس کو بُرا نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مذکورہ احادیث سے اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے عمل سے اس کی رخصت پائی جاتی ہے۔اور ہلکی داڑھی کامٹھی سے زائد کٹانا یہ خطرناک ہے کیونکہ اس کے متعلق کوئی تسلی بخش دلیل نہیں پائی گئی۔ رہامٹھی سے اندر کٹانا خواہ داڑھی ہلکی ہو یا بھاری یہ منڈانے کے مترادف ہے اور منڈانے کے متعلق جو کچھ وعید ہے وہ شروع میں گزر چکی ہے بلکہ خود مولانامودودی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس پر سخت فتویٰ دے دیا ہے اور مذاہب اربعہ بھی اس پر متفق ہیں : فتویٰ شافعیہ: فإنه جائز أما اللحية فإنه يكره حلقها والمبالغة في قصها فإذا زادت على القبضة فإن الأمر فيه سهل (فقہ المذاہب) "داڑھی کا منڈانا اور اس کے کاٹنے میں مبالغہ کرنایہ دونوں مکروہ[1] (تحریمی) ہیں ۔جب داڑھی مٹھی سے زائد ہوجائے۔تو اس(کےکٹانے) میں آسانی کردی گئی ہے۔" فتویٰ حنفیہ: "يحرم حلق لحية الرجل ويسن ألا تزيد في طولها على القبضة فما زاد على القبضة، لا بأس بأخذ أطراف اللحية" "مرد کاداڑھی منڈانا حرام ہے اور طول میں مٹھی سے نہ بڑھنے دینا مسنون ہے۔پس جو مٹھی سے زائد ہو ،کٹائی جائے اور کناروں (دائیں بائیں جانب) سے لینے کا بھی کوئی حرج نہیں "
Flag Counter