فتویٰ مالکیہ: "يحرم حلق اللحية"ترجمہ:"داڑھی منڈانا حرام ہے" فتویٰ حنابلہ:۔ ويحرم حلق اللحية ولا بأس بأخذ ما زاد علي القبضة من الشعر (حوالہ مذکورہ) "داڑھی منڈانا حرام ہے اور مٹھی سے زائد لینا کوئی حرج نہیں ۔پس مٹھی سے زائد کٹانا مکروہ نہیں جیسے مٹھی سے زائد چھوڑنا مکروہ نہیں اور گلے سے نیچے(نرخرہ) کے بال لینے بھی مکروہ نہیں " 2۔بودے یا انگریزی بال: انسان چونکہ طبعاً آزاد ہے اور آزادی کو پسندکرتا ہے۔اس لیے اگر اس کو خواہش نفس کے مطابق کوئی شے مل جائے تو اس کو غنیمت سمجھتاہے اور بہت جلد اس کی طرف جھک جاتا ہے۔حالانکہ عقل سلیم کاتقاضا یہ ہے کہ طبیعت پر کنٹرول کرے اور اپنا نقصان سوچے،فائدے والی جانب کو ترجیح دے اور نقصان سے بچے۔مگر ایسے بہت کم لوگ ہیں جو خواہش کو دبا کر عقل سلیم کا تقاضا پورا کرتے ہیں حالانکہ باوقار زندگی یہی ہے اور اسی خاطر خدا تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے اور چار کتابیں اور بے شمار صحیفے اُتارے تاکہ نفس سے پوری جنگ ہو اور عقل سلیم کا تقاضا پورا ہو۔کاش! من چاہے مطلب نکالنے والے مولوی درمیان میں حائل نہ ہوتے تو کسی حد تک راستہ صاف ہوجاتا اور چلنے والوں کو رکاوٹ نہ ہوتی۔مگر انہیں مولویوں نے جو چیز اصلاح کے لیے آئی تھی،اس کی ایسی شکل بگاڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کی بجائے اصلاح کے گمراہی کاباعث بن گئی۔قرآن وحدیث سے بڑھ کر کون مصلح ہوسکتا ہے مگر جب ان کے معانی اپنی رائے سے کئے جائیں تواتنی گمراہی پھیلتی ہے کہ اس پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے۔یہیں سے مرزائی گمراہ ہوئے اور اسی سے چکڑالویوں کو انکار حدیث کاموقعہ ملا اور اسی سے تمام اہل بدعت پھلے پھولے۔اگر قرآن وحدیث کے وہی معانی لیے جاتے جو ان بزرگوں نے سمجھے جن کی معرفت ہمیں قرآن وحدیث پہنچے ہیں توحق پر پردہ نہ پڑتا اور مسلک اعتدال پر چلنے والوں کے لیے راستہ بالکل صاف ہوتا لیکن جب گمراہی کا نام مسلک اعتدال رکھ لیا جائے۔اور قرآن وحدیث کو موڑ تروڑ کر اس پر چسپاں کیا جائے تو ایسے موقعہ پر اپنے دین کا خدا ہی حافظ ہے۔ مولانا مودودی کے لٹریچر میں بھی اس قسم کی باتیں ملتی ہیں کہ اپنی رائے سے قرآن وحدیث کا مطلب بیان کردیتے ہیں اور جو کچھ سمجھ میں آتا ہے،لکھ دیتے ہیں اور اس پر زیادہ غور نہیں کرتے کہ پہلے بزرگوں نے کیا سمجھا اور اس پر کس طرح عمل کیا؟بلکہ کسی دوسری آیت وحدیث کے خلاف ہوجائے تو بھی |